جب اے پی پی کارپوریشن بنی
تحریر: محمد لقمان
جنرل پرویز مشرف نے سال دو ہزار دو میں پریس کونسل آف پاکستان آرڈیننس کے نفاذ اور پیمرا کی تشکیل کے بعد میڈیا کے میدان میں جو دیگر اقدامات لیے، ان میں قومی خبر رساں ایجنسی اے پی پی کو کارپوریشن میں بدلنا تھا۔ اس کے لئے انیس اکتوبر دو ہزار دو کو ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان آرڈیننس جاری کیا گیا۔ جس کے تحت اے پی پی کی سربراہی ڈائریکٹر جنرل کی بجایئے مینجنگ ڈائریکٹر یعنی ایم ڈی کو سونپ دی گئی تھی۔ کارپوریشن کے امور کو چلانے کے لیئے ایک گیارہ رکنی بورڈ تشکیل دے دیا گیا تھا۔ جس کی سربراہی چیرمین نے کرنی تھی۔ بورڈ میں وزارت اطلاعات و نشریات کے سیکرٹری، ایم ڈی (اے پی پی) ، ایم ڈی پی ٹی وی اور ایم ڈی پی بی سی ، کراچی اور پنجاب یونیورسٹیوں کے ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹس کے چیرمینو ں کے علاوہ سی پی این ای کے نمائندے اور نجی شعبے سے دو ارکان شامل کیے گئے تھے۔ بظاہر تو یہ قدم اے پی پی کے معاملات کو بہتر بنانے کے لئے کیا گیا تھا۔ مگر کارپوریشن کے قیام کے بعد اے پی پی کا رپورٹر ڈائریکٹر کی سطح سے آگے نہیں جاسکتا تھا۔ ایم ڈی ، یکٹو ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر فنانس تو یقینی طور پر وزارت اطلاعات و نشریات سے آنے تھے۔ مگر اس کے ساتھ اے پی پی کے علاوہ نجی شعبے سے بھی ٹاپ پوزیشنز کے لئے تعیناتی ہونی شروع ہوگئیں۔ مالی معاملات میں اے پی پی اب مزید سرکار کی محتاج ہو چکی تھی۔ کیونکہ انٹرنیٹ کی ایجاد سے فاریکس ریٹس اور کمرشل ریٹس کی تقسیم اب اے پی پی کی آمدنی کا ذریعہ نہیں رہی تھی۔ اب تھوڑی سی اے پی پی کی تاریخ کی بات ہوجائے۔ پاکستان کی قومی خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کی تاریخ اتنی ہی طویل ہے جتنی کہ مملکت خداداد کے قیام کی۔۔ اس کا آغاز ملک تاج الدین نے نجی شعبے میں ملک کی پہلی نیوز ایجنسی کے طور پر قائم کیا۔ یہ بنیادی طور پر برطانوی نیوز ایجنسی کی برصغیر میں شاخ کا ہی نیا جنم تھا۔ جس نے انیس سو انیس میں ایسوسی ایٹڈ پریس آف انڈیا کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ اگر نام کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ انیس سو سینتالیس میں قائم ہوئی۔ مگر یہ تاریخی طور یہ انیس سو پانچ میں قائم ہونے والی ایسوسی ایٹڈ پریس آف انڈیا کا ہی ایک تسلسل تھی۔ نجی شعبے میں قائم ہونے والی یہ خبر رساں ایجنسی انیس سو اکسٹھ تک آزادانہ کام کرتی رہی۔ انیس سو اکسٹھ تک اس کے بانی ملک تاجدالدین جنرل مینجر اور ٹرسٹی کے طور پر ذمہ داریاں انجام دیتے رہے۔ مگر انیس سو اکسٹھ میں صدر جنرل ایوب خان کے دور میں اسے ایک آرڈیننس کے ذریعے حکومت کی انڈرٹیکنگ قرار دے دیا گیا۔ جس نے اب پاکستان کی قومی خبر رساں ایجنسی کے طور کام کرنا تھا۔ چودہ جولائی انیس سو اکسٹھ کو حکومت نے ملک تاج الدین کی جگہ اے آر قریشی کو نیوز ایجنسی کا ایڈمنسٹریٹر اور جنرل مینجر مقرر کردیا جو کہ اکیس مئی انیس سو پینسٹھ تک اس عہدے پر قائم رہے۔ اے پی پی کا ہیڈ آفس کراچی سے اسلام آباد منتقل کردیا گیا تھا اور اب وہ اب بنیادی طور پر یہ حکومت کا ایک ماوتھ پیس بن چکی تھی۔ اس کے ملازم صحافی کم اور سرکاری ملازم زیادہ تھے۔ اس کی حیثیت اب پاکستان ٹائمز، مشرق اور امروز جیسی ہی تھی۔ جنہوں نے ہمیشہ سرکار کی پالیسی کے مطابق خبریں نشر کرنا تھیں۔ اسلام آباد میں ھیڈکوارٹر کے علاوہ کراچی، ڈھاکہ اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں بیورو دفاتر کے علاوہ راولپنڈی، کوئٹہ اور پشاور میں اسٹیشن تھے۔ تمام خبریں ٹیلی پرنٹرز کے ذریعے اخبارات کے دفاتر ، پی ٹی وی ، ریڈیو اور دیگر اہم دفاتر تک ٹیلیگراف اینڈ ٹیلیفون کے نیٹ ورک کے ذریعے جاتی تھیں۔ خبریں چونکہ انگلش میں ہوتی تھیں۔ اس کے لئے اس کا مغربی پاکستان کے اخبارات میں اردو ترجمہ ہوتا تھا جبکہ مشرقی پاکستان کے اخبارات خود اس کا بنگالی ترجمہ کرتے تھے۔ گویا کہ اخبارات میں ڈیسک پر کام کرنے والے کے پاس انگلش سے اردو اور بنگالی ترجمے کی اہلیت بھی ضروری تھی۔ انیس سو پینسٹھ سے انیس سو اڑسٹھ تک حامد جلال جنرل مینجر رہے جبکہ ان کے بعد انیس سو چوہتر تک صفدر علی قریشی ادارے کے سربراہ کی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔مشرقی پاکستان انیس سو اکہتر میں بنگلا دیش بنا تو اے پی پی بھی موجودہ پاکستان تک محدود ہوگئیَ۔ اب کراچی اور لاہور کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی اے پی پی کا جال پھیلا دیا گیا تھا۔ اے پی پی کے آخری جنرل مینجر بائیس مئی انیس سو چوہتر سے دس جون انیس سو اٹھتر تک اس عہدے پر فائز رہے۔ جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں انیس سو اٹھتر میں جنرل مینجر کے عہدے کو ڈائریکٹر جنرل میں بدل دیا گیا۔ پہلے ڈی جی احمد بشیر تھے جو کہ انیس سو اسی تک اس عہدے پر فائز رہے۔ دو ہزار دو میں ایم ڈی کا عہدہ متعارف ہونے تک سولہ ڈائریکٹرز جنرل نے نیوز ایجنسی کی سربراہی کی۔ ان میں فاروق نثار اور ایم آفتاب بھی شامل تھے جن کو ایک رپورٹر کی حیثیت سے ادارے کی سربراہی تک مختلف ذمہ داریاں ادا کرنے کا موقع ملا۔ باقی ڈی جیز میں زیادہ تر پی آئی ڈی سے تعلق رکھنے والے سرکاری افسران تھے۔