دریائے نیلم کنارے
تحریر: محمد لقمان
مطفر آباد کے ویگن اسٹینڈ سے رکشا لیا اور نیلم ویو ہوٹل پہنچ گئے۔ ہوٹل کی چمک دھمک بتا رہی تھی کہ عمارت ابھی نئی نئی ہی بنی ہے۔ ریسیپشن پر پہنچے تو مطیع الرحمان خان نامی مینجر سے ملاقات ہوئی۔ سفید شلوار قمیص میں ملبوس گورے چٹے مطیع کی عمر اس وقت تیس سال کے قریب تھی۔ اس نے اپنے بارے میں بتایا کہ نیلم ویو اس کے خاندان کا ہی ہوٹل ہے۔ اس کا رویہ بڑا اچھا تھا۔ ہوٹل کی پہلی منزل پر ہی کمرہ مل گیا ۔ ڈیلکس کمرے میں رہائش کا اپنا ہی مزہ ہوتا ہے۔ اور وہ بھی کشمیر میں ایک دریا کنارے۔ سر شام ہی کھانا کمرے میں منگوا لیا۔ کئی گھنٹوں کے سفر سے تھکی ہوئی ننھی منی سائرہ بھی سو گئی تھی۔ یہ اس کی نو دس ماہ کی زندگی کا لمبا ترین سفر تھا۔ اگلی صبح سپیکر آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی راجہ ممتاز حسین راٹھور کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونی تھی۔ اور اس کی کوریج کے لئے ہی یہ تھکا دینے والا سفر کیا تھا۔ اس لیے تھوڑی دیر کے گراونڈ فلور گئے۔ لابی میں بیٹھے اور دریا کنارے واقع ریسٹورینٹ کا جائزہ بھی لیا۔ چونکہ ہم کمرے میں کھانا کھا چکے تھے۔ اس لیے ویسے ہی تھوڑی دیر کے لئے وہاں چہل قدمی کی۔ دریا کی لہروں کا مدھم شور فضا میں ایک عجب سحر پیدا کر رہا تھا۔ بہر حال جلد سونے کے لئے کمرے میں چلے گئے۔ صبح سویرے ناشتے کے لئے گراونڈ فلور پر آئے تو لابی میں آزاد کشمیر کی وزارت اطلاعات کے ادارے پریس انفرمیشن ڈیپارٹمنٹ کا نمائندہ وہاں موجود تھا۔ جس نے بتایا کہ جلد از جلد ناشتہ کریں۔ اس کے بعد پی آئی ڈی کے دفتر جانا ہے۔ جہاں سے ڈائریکٹر پی آئی ڈی کے ساتھ کشمیر کی قانون ساز اسمبلی پہنچنا تھا۔ جلدی جلد ی ناشتے کے بعد بیگم کو کمرے کو پہنچایا۔ پی آئی ڈی کے اہلکار کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر پی آئی ڈی کے دفتر پہنچ گیا۔ پی آئی ڈی کا دفتر بڑا ہی بے ترتیب سا تھا۔ پرانے زمانے کا فرنیچر اور یقیناً پرانے فیشن کے ہی لوگ۔ ڈائریکٹر صاحب بھی دفتر آچکے تھے۔ ان کا نام بھول چکا ہوں۔ انہوں نے جلدی سے چائے کا انتظام کیا ۔ چائے پینے کے بعد پیدل ہی قانون ساز اسمبلی کی طرف چل پڑے تھے۔
( جاری ہے)