کراچی پریس کلب کی یاترا
تحریر: محمد لقمان
کراچی جائیں اور پاکستان کے قدیم ترین پریس کلب میں دوستوں سے ملاقات نہ ہو۔ یہ ایک صحافی کے لئے بڑا مشکل فیصلہ ہوتا ہے۔ اس بار کراچی گیا تو مقصد سندھ کے ساحلی اضلاع میں ہائبرڈ چاول کی مختلف اقسام کی کامیاب کاشت کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا تھا۔ ضلع بدین کے علاقے گولارچی میں چاول کے کھیتوں کے دورے کے بعد کراچی واپسی پر پریس کلب جانے کا موقع مل گیا تھا۔ میں کراچی پریس کلب تقریبا ً تئیس سال کے بعد جارہا تھا۔ اٹھارہ نومبر انیس سو ستانوے کو اقتصادی تعاون کی تنظیم (ای سی او) کے رکن ممالک کے صحافیوں کے ساتھ کراچی پریس کلب جانے کا موقع ملا تھا۔ اس زمانے میں کراچی پریس کلب کے صدر حبیب خان غوری تھے۔ جنہوں نے کلب آنے پر استقبال کیا۔ اس موقع پر تاجکستان کی نیوز ایجنسی کے رپورٹر نورالدین نے وفد کی طرف سے کلمات کہے۔ روسی زدہ انگریزی میں درمیانی عمر کے نور الدین کی تقریر کو بہت سراھا گیا۔ اس بار غیر ملکی صحافی نہیں تھے۔ بلکہ تمام کے تمام لاہور کی زرعی صحافیوں کی تنظیم آجا کے رکن تھے۔ ابھی چونکہ کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز فاران اپنے دفتر سے پہنچ نہیں پائے تھے۔ اس لیے تمام تر مہمان نوازی کا کام پریس کے سیکرٹری جنرل ارمان صابر اور دیگر عہدیداروں نے انجام دیے ۔ گولارچی کے گھنٹوں تھکا دینے سفر کے بعد کراچی پریس کلب میں ملک کے سب سے بڑے شہر کے صحافیوں نے اپنے حسن اخلاق سے سب کو دوبارہ ھشاش بشاس کر دیا تھا۔
آخر کار امتیاز فاران اپنے دفتر سے موٹر سائکل پر سوار ہو کر کلب پہنچ گئے۔ بڑے عرصے کے بعد کسی موٹر سائکل سوار کو پاکستان کے کسی بڑے پریس کلب کا صدر دیکھا ہے۔ ورنہ ایک الیکشن جیتنے کے بعد ہی گردن میں سریا آجا تا ہے اور موٹر سائکل سے کار کا سفر چند ماہ میں ہی طے ہوجاتا ہے۔ امتیاز فاران کے آتے ہی کلب کی بالائی منزل کے ایک کمرے میں ڈنر کا انتظام کردیا گیا تھا۔ بریانی ، دال چاول اور نہاری ۔۔۔سب کی سب کراچی کی مشہور ڈشز ، میز پر موجود تھیں۔ کھانے کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست اور صحافیوں کے مسائل پر کھل کر بات ہوئی۔ اسی دن وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز بھی کراچی آئے ہوئے تھے۔ امتیاز فاران نے شبلی فراز کے ساتھ ملاقات میں ہونے والی باتوں کے بارے میں بتایا ۔ یہ بات بہت اچھی لگی کہ ایک صحافی رہنما صرف اپنی بات نہیں کرتا بلکہ پوری کمیونٹی کی بات کرتا ہے۔ پنجاب کی صحافی براداری کو کراچی والوں سے کچھ سیکھنا چاہیے۔ جب پوری کمیونٹی کے فائدے کی بات کی جائے تو انفرادی معاملات بھی درست ہو جاتے ہیں۔ رات گئے کلب سے واپس ہوٹل پہنچے۔ اگلے دن حضرت امام حسین کا چہلم تھا۔ کچھ دوست اگلے روز واپسی کی فلائٹ سے پہلے گھروالوں کے لئے زینب مارکیٹ سے خریداری کرنا چاہتے تھے۔ اگلی صبح اٹھے تو ڈان ٹی وی سے تعلق رکھنے والے ہمارے نوجوان دوست علی وقار اور اے آر وائی کے تھوڑے سے کم جوان دوست الماس خان نے زینب مارکیٹ جانے کے لئے ہوٹل کے باہر ایک ٹیکسی والے کو روکا تو اس صاف گو شخص نے ان کو بتایا کہ چہلم کے جلوس کی وجہ سے وسطی کراچی کے اکثر علاقے بند ہیں۔ اگر ویسے ادھر ادھر کا چکر لگانا چاہیں تو ٹیکسی حاضر ہے۔ قصہ مختصر کہ دونوں صاحبان پندرہ منٹ کے بعد ہی ہوٹل لابی میں موجود تھے۔ ایک بجے کے قریب ہوٹل سے تھوڑی مسافت پر موجود جناح ایرپورٹ پہنچے ۔ تین بجے پی آئی اے کی تین صفر چار پرواز لاہور کی طرف چل پڑی تھی۔ یوں پاکستان کے جنوبی علاقوں کا یاد گار سفر اختتام کو پہنچ گیا۔