تحریر: محمد لقمان
جنوری ،فروری اور جولائی، اگست کے مہینوں میں آپ سگیاں پل کے ذریعے دریائے راوی کے پار جائیں تو سڑک کے بائیں طرف سفید اور کہیں کہیں سرخی مائل امرود ٹوکروں میں پڑے نظر آئیں گے۔ اس پھل کو دیکھتے ہی منہ میں پانی بھر آتا ہے اور ہر کوئی اس مزیدار موسمی پھل کو خریدنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ امرود اس وقت پاکستان کا چوتھا اور پنجاب کا تیسر ا اہم پھل ہے۔ یعنی آم، کنو اور کیلے کے بعد اگر کوئی موسمی پھل مملکت خداداد میں آبادی کی اکثریت کھاتی ہے تو وہ امرود ہے۔
پاکستان میں امرود کازیر کاشت رقبہ 66662 ہیکٹرز اور سالانہ پیداوار 4 لاکھ 95ہزار 229 ٹن سے زائد ہے جبکہ اس کی مانگ بڑھنے کی وجہ سے وسطی پنجاب کے اضلاع۔ فیصل آباد، سیالکوٹ،گوجرانوالہ، لاہور، شیخوپورہ،اوکاڑہ قصوراور ننکانہ صاحب میں امرود کے زیرکاشت رقبہ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کی اہم اقسام میں سفیدہ، سرخا، گولا، چھوٹی صراحی، صراحٰ ، کریلا ، حفصی اور اللہ آباد شامل ہیں۔ اقسام کا تعین پھل کی جلد اور گودے کے رنگ سے کیا جاتا ہے۔ چونکہ پانی کے بہت زیادہ استعمال کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لیے امرود کافی سخت جان ہوتا ہے جسے ہر قسم کی زمینوں میں کامیابی سے کاشت کیاجاسکتاہے۔ تھوڑی سی سرمایہ کاری کے بعد کسان کو خاصا منافع مل جاتا ہے۔75 سے 100کلوگرام فی پودا ان اقسام کی پیداواری صلاحیت ہے۔
امرود برصغیر پاک وہند کا مقامی پھل نہیں ہے۔ پپیتے اور کاجو کی طرح اس کو بھی پرتگیز لاطینی امریکہ سے جنوبی ایشیا میں لائے۔ دو سے تین صدی پہلے آنے والے چند پودے اب جنوبی ایشیا میں لاکھوں ہیکٹرز زمین پر کاشت کیے جا چکے ہیں۔ اور اس کی کاشت سے کروڑوں افراد کا روزگار جڑا ہوا ہے۔ پاکستان میں اس پھل کی معاشی حرکیات کا جائزہ لیا جائے تو بہت زیادہ خوشگوار تصویر سامنے نہیں آتی۔ پاکستان میں نہ تو ایک اچھا مارکیٹنگ کا نظام ہے اور نہ ہی کول چین کا وجود ہے۔اس لئے یہاں پر امرود کی فصل کی چنائی کے عمل سے لے کر منڈی تک پہنچانے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ امرود کے پھل کوتو ڑنے کے لئے روائیتی طریقہ ہی استعمال کیا جاتاہے۔جس کی وجہ سے جو پھل پوری طرح پک چکا ہو وہ زمین پر گرتے ہی خراب ہو جا تاہے اور جو ابھی درمیانی حالت میں ہو وہ بہتر کولٹی کی پیکینگ نہ ہو نے کی وجہ سے منڈی تک پہنچنے سے پہلے ہی خراب ہو جا تا ہے۔ اس طرح پاکستان میں امرود کی کل پیداوارکا 20 تا40 فیصد بعد از برداشت مراحل میں ضائع ہو جا تاہے۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جس امرود پر طوطے کی چونچ کے کاٹنے کا نشان ہو وہ میٹھا ہوتا ہے۔ مگر ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ میٹھے اور پکے ہوئے امردوں کو چھانٹنا کچھ زیادہ مشکل نہیں بس آپ کو چند چیزوں پر نظر رکھنی ہوتی ہے۔پھل کے رنگ کو دیکھیں، اگر وہ شوخ سبز سے ہلکے زرد رنگ میں تبدیل ہوگیا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ وہ پک چکا ہے اور اس کا ذائقہ اچھا ہوگا۔ تاہم اگر آپ کو اس طرح کے رنگ والا امرود نہیں ملتا تو ہمیشہ کچے یا سبز امردو خریدیں کیونکہ وہ بہت جلد پک جاتے ہیں۔ اچھا پکا ہوا امرود وہ ہوتا ہے جس کی مہک دور سے ہی آجاتی ہے، یہ مہک میٹھی محسوس ہوتی ہے۔ امرود جتنا نرم ہوگا، اتنا ہی میٹھا اور لذیذ بھی ہوتا ہے۔
امرود کے پھل کے طبی فوائد بہت سے ہیں۔ غذائی کے اعتبار سے امرود کو وٹامن سی کا باشادہ کہاجاتاہے۔ ا س کے 100 گرام پھل میں 280 ملی گرام وٹامن سی کے علاوہ وٹامن اے،فاسفورس،چونااور فولاد بھی شامل ہے۔ یوں امرود میں وٹامن سی کنو اور دیگر ترشاوہ پھلوں سے چار سے پانچ گنا زیادہ ہوتی ہے۔ امرود قبض کشا ہونے کے ساتھ ایک اچھا ہاضم بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ امرود کے پھل کو براہ راست کھانے کے علاوہ جیم، جیلی، سکوائش، جوس بلینڈ اور کینڈی کی شکل میں بھی کھانا پسند کرتے ہیں۔ امرود کے ذائقے اور فوائد اتنے زیادہ ہیں کہ جونہی کوئی ٹھیلے والا یا ریڑھی والا آواز لگاتا ہے کہ باغاں دے پیڑے تو ہر کوئی اس کو ضرور خریدنا کا سوچتا ہے۔