تحریر: محمد لقمان
انیس سو ستتر میں پاکستانی تاریخ کے دوسرے عام انتخابات کا اعلا ن ہوا تو کسی کو اس وقت نہیں پتہ تھا کہ سات مارچ اور دس مارچ کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے پولنگ تو ہو جائے گی۔ مگر اس کے بعد شاید جمہوری حکومت کی تشکیل ہی نہ ہو سکے ۔ اس وقت میں چھٹی جماعت کا طالبعلم تھا اور اکتیس مارچ کو امتحانات کے نتائج کے بعد ساتویں کلا س میں جانا تھا۔ سکول انتظامیہ نے سو چ رکھا تھا کہ جونہی دس مارچ کو صوبائی انتخابات کا عمل مکمل ہوگا تو جلدی جلدی امتحان لے کر طلبہ کو نتائج کی بنیاد پر اگلی کلاسز میں پروموٹ کردیں گے۔ مگر ایسا نہ ہوا ۔ سات مارچ کو قومی اسمبلی کے انتخابات کی شام کو ہی اپوزیشن کی طرف سے دھاندلی کے الزامات آنے لگے۔ دس مارچ کو جو انتخابات ہوئے تو اس میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے اکٹھ پاکستان قومی اتحاد نے بڑی بد دلی سے حصہ لیا۔ اپوزیشن کی شکایات کو دور کرنے کی بجائے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت پیپلزپارٹی نے الزامات کے ذریعے معاملات کو درست کرنے کی کوشش کی۔ جس کے نتیجے میں اپوزیشن نے احتجاجی تحریک شروع کردی۔ جس میں غیر سیاسی ادارے بھی شامل ہوگئے۔ بحران کو حل کرنے کے لئے کئی غیر ملکی سفیروں خصوصاً سعودی عرب کے سفیر ریاض الخطیب نے پوری کوشش کی۔ مگر اب معاملات سیاسست کی بجائے کسی طور طرف چل پڑے تھے۔ جس کا ذکر مرحوم مولانا کوثر نیازی نے اپنی کتاب اور لائن کٹ گئی میں تفصیل سے کیا ہے۔ دھاندلی کے خلاف تحریک کو تحریک نظام مصطفی میں کس نے تبدیل کیا ۔ بعد میں اس کا سب کو پتہ چل گیا۔ طلبہ اور طالبات کے امتحانات تو ہو نہ سکے۔ البتہ ان کو بغیر کسی امتحان کے اگلی کلاسز میں بھیج دیا گیا اور پانچ جولائی انیس سو ستتر کو ملکی تاریخ کا تیسرا مارشل لا لگا دیا گیا۔ انیس سو اٹھاون میں جنرل ایوب خان اور انیس سو انہتر میں جنرل یحیی خان نے مارشل لا لگایا تھا۔ مگر اب یہ مارشل لا اسلام کے نام پر جنرل ضیاالحق نے لگایا تھا۔ جس کو پوری قوم کو گیارہ سال بھگتنا پڑا اور میری یونیورسٹی تک کی تعلیم بھی فوجی حکومت کے دور میں مکمل ہوئی۔ ٹھیک تینتالیس سال کے بعد ایک بار پھر طلبہ و طالبات کو بغیر امتحان کے اگلی کلاسوں میں بھیجا جارہا ہے۔ اس بار اس کی وجہ کوئی سیاسی بحران نہیں بلکہ ایک ایک میٹر کے اربویں حصے کے بعد ایک جرثومے کا دنیا بھر پر حملہ ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان بھر میں تعلیم کا سلسلہ تو مارچ سے معطل ہے۔ اب تعلیمی ادارے پندرہ جولائی تک بند رہیں گے۔ تمام تعلیمی بورڈذ کا امتحانی شیڈول منسوخ کردیا گیا ہے۔ اس بار میں طالبعلم کی حیثیت میں متاثر نہیں ہوا۔ البتہ میرا بیٹا اور بیٹی متاثر ہوئے ہیں۔ بیٹے کو گیارھویں جماعت کے نتائج کی بنیاد پر بارھویں جماعت کے لئے مارکس دے دیے جائیں گے۔ جبکہ بیٹی کو چارٹرڈ اکاونٹسی کے اگلے امتحان کے لئے مزید چھ ماہ انتظار کرنا پڑے گا۔ گویا تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ تینتالیس سال پہلے سیاسی بحران نے مملکت خداداد کے نوجوانوں کی تعلیم کو متاثر کیا تھا۔ مگر اس بار ایک جراثیم ہے۔ اس بحران کا کوئی نہ کوئی نتیجہ دو چار ماہ میں نکل آیا تھا۔ مگر کورونا وائرس کی وبا ابھی کتنے مہینے یا کتنے سال کرہ ارض کو متاثر کرے گی۔۔۔کسی کو معلوم نہیں