تحریر: محمد لقمان
میرے مرحوم والد نے مجھے ایک بار متحدہ ہندوستان کے دور کا واقعہ سنایا تو میں بہت حیران ہوا۔ واقعہ کچھ یوں تھا کہ ایک بار وہ مشرقی پنجاب میں اپنے شہر امرتسر سے فیروز پور گئے تو وہاں انہوں نے ایک چوک میں ٹھیلے والے کو آواز لگاتے سنا کہ مسلمان گوشت اور ھندو دال۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ دو مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے لئے الگ الگ کھانے بکتے ہوں۔ تو انہوں نے بتایا کہ یہ تو بہت چھوٹی سی بات تھی۔ اس سے بڑی بات تو یہ تھی کہ اگر کوئی مسلمان کسی ھندو دوست کے گھر جاتا تو اس کے کھانے کے لئے الگ برتن لائے جاتے۔ یہ چھوٹے چھوٹے اختلافات قیام پاکستان کے اعلان کے بعد تو بڑی مخالفت میں بدل گئے۔ ایک بہت بڑا قتل عام ہوا۔ اگست اور ستمبر انیس سو سینتالیس میں امرتسر ا ور مشرقی پنجاب کے دیگر علاقوں میں مسلم کش فسادات ہوئے تو ساتھ کے ہمسایوں نے گندھک ، فاسفورس اور تیزاب سے گھر میں بنائے بم پھینکے۔ ایک ایسے ہی حملے میں میرے والد کے تایا زاد ابراہیم جان سے گئے۔ یہ بم ان کے بچپن کے دوست روشن لال نے ساتھ والے گھر سے پھینکا تھا۔ آنے والے برسوں میں ابا جی کی یہ باتیں اس وقت بڑی افسانوی لگتیں جب بولی وڈ فلموں میں مسلمانوں اور ھندووں کو شیر و شکر دیکھتے۔ بطور صحافی جب بھی واہگہ کی سرحد پار کرکے آئے بھارتیوں سے ملا تو صرف امن کا پیغام ہی سنائی دیا ۔ان کے مطابق بابری مسجد کو زمین بوس کرنے والے صرف چند فی صد آبادی کے نمائند ے تھے۔ اصل ہندو تو کھلے دل کے مالک ہیں۔ وہ لوگ جہاں امن کی باتیں کرتے تو وہیں پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحد کو بھی مصنوعی لکیر قرار دیتے۔ ہر بار ان کا یہی اصرار ہوتا کہ اگر سب مل کر دوبارہ دونوں ملکوں کو اکٹھا کر لیں تو دنیا میں ایک بہت بڑی قوت سامنے آسکتی ہے۔
انیس سو ننانوے میں جب بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی دوستی بس کے ذریعے لاہور پہنچے اور مینار پاکستان کا دورہ بھی کیا تو یقین آگیا کہ میرے والد کے ذہن میں صرف ایک وہم تھا۔ ورنہ بھارتی ایسے کیسے ہو سکتے ہیں۔ مگر بھلا ہو بھارتیہ جنتا پارٹی کی نئی قیادت کا۔ جس کے مسلمانوں کے ساتھ برتاو نے ثابت کیا کہ ہمارے بڑوں کی باتیں سچی تھیں۔ دو قومی نظریہ بھی درست تھا۔ پاکستان کا قیام بھی ہر لحاظ سے ضروری تھا۔اگست میں مقبوضہ کشمیر کے لاک ڈاون اور دسمبر میں بھارتی شہریت کے نئے قانون پر مسلمانوں نے جب احتجاج کیا اور ان کے ساتھ جو کچھ اب تک ہوا ہے۔ وہ اس بات کی دلیل ہے کہ بھارت کا سیکولر ازم بھی ایک فراڈ تھا۔ جب بھارتی جمہوریت کے چہرے کا ماسک اترا تو صرف پاکستان اور اسلام دشمنی ہی سامنے آئی۔ کرونا وائرس کو جس طرح مسلمانوں سے جوڑا گیا اور بعد میں اس کی آڑ میں ظلم و ستم کا بازار گرم کیا گیا ہے۔ اس سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ سو سال پہلے والے حالات آج بھی موجود ہیں۔ اس سلسلے میں حال ہی میں دہلی اور دیگر بڑے شہروں میں مسلمان سبزی والوں کا ہندو آبادی کی طرف سے بائیکاٹ ہے۔ جو کہ صرف ان افراد سے اشیائے صرف خریدنا چاہتے ہیں جن کی ریڑھیوں پر زعفرانی رنگ کے رام جھنڈے لگے ہوں۔ گویا کہ آج بھی مسلمان کے لئے گوشت اور ھندو کے لئے دال الگ ہی بکتی ہے۔