ملتان بنا اگلا پڑاو
تحریر: محمد لقمان
آخر کار اے پی پی مینجمنٹ ساجد علیم پر دوبارہ مہربان ہوگئی اور ان کا تبادلہ لاہور سے فیصل آباد ہوگیا۔ یوں میں واپس لاہور آگیا۔ اس دوران بیورو چیف لاہور سلیم بیگ کی ترقی ہوگئی اور وہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی حیثیت میں اے پی پی کے ہیڈکوارٹر اسلام آباد چلے گئے۔ وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے وفاقی وزیر اطلاعات خالد خان کھرل کی خواہش پر ایم آفتاب کی جگہ اسلم شیخ کو اگست انیس سو چورانوے میں اے پی پی کا نیا ڈائریکٹرجنرل مقرر کردیا تھا۔ اے پی پی ملتان کے بزرگ اسٹیشن مینجر عقیل راو کی ریٹائر منٹ پر لاہور سے مسرت حسین کو بطور قائم مقام اسٹیشن مینجر بھیجا گیا تو انہوں نے کچھ عرصے کے بعد اے پی پی لاہور کے نئے بیورو چیف آفتاب گیلانی کو قائل کرلیا کہ ان کی لاہور واپسی کردی جائے۔ ستمبر کی ایک صبح میں دفتر پہنچا تو آفتاب گیلانی نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا اور ایک لیٹر میرے حوالے کردیا۔ جو کہ میری اے پی پی کے ملتان اسٹیشن میں بطو ر قائم مقام اسٹیشن مینجر تعیناتی کا آرڈر تھا۔ میں نے ان کو بتایا کہ میری والدہ ان دنوں بہت زیادہ علیل ہیں اور میں ہر ہفتے ان کو ملنے فیصل آباد چلا جاتا ہوں۔ اس لیے کسی اور کو ملتان بھیج دیں۔ مگر انہوں نے کہا کہ ڈی جی اسلم شیخ نے آپ کو ہی ملتان بھیجنے کا کہا ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ اسلم شیخ تو مجھے بالکل نہیں جانتے تو وہ ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں۔ مگر ان پر جیسے مسرت حسین کا بنگالی جادو چل چکا تھا۔ انہوں نے ہر حال میں اگلے دو روز میں ملتان روانہ ہونے کا کہہ دیا۔ میں بڑے بوجھل قدموں شام کو مزنگ میں سراج بلڈنگ بیچلر ہاسٹل میں اپنے کمرے میں آیا اور اپنے بقایا جات چکتا کیے۔ اگلی صبح میں موسی پاک ایکسپریس کے ذریعے ملتان روانہ ہوگیا۔ بکنگ تو میں نے نہیں کروائی تھی۔ اس لیے ٹرین میں کھڑے ہوکر ہی سفر کرنا پڑا۔ میں نے فون کرکے ملتان آفس میں آنے کی اطلاع کردی تھی۔ ملتان کینٹ اسٹیشن پہنچا تو وہاں پر بزرگ ٹیلی پرنٹر آپریٹر خلیل احمد میرے استقبال کے لئے موجود تھے۔ ان کی موٹر سائکل پر بیٹھنے کے بعد میں نے اپنی پتلون کی جیب میں پرس چیک کیا تو وہ غائب تھا۔ ٹرین میں دھکم پیل کے دوران کسی نے وہ پرس ہی نکال لیا تھا۔ میں آفس کارڈ ، قومی شناختی کارڈ اور چند سو روپے سے میں محروم ہوگیا تھا۔ تاہم میر ی شرٹ کی جیب میں اتنی رقم موجود تھی جس سے تنخواہ آنے تک گذارہ ہوتا رہا۔ ڈیرہ اڈا کے سامنے حسن پروانہ روڈ پر واقع دفتر پہنچا اور مسرت حسین کا پوچھا۔ تو آفس بوائے نے بڑے معنی انداز میں ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا۔ اندر داخل ہوا تو وہاں بڑا روح پرور منظر تھا۔ مسرت صاحب بنگالی انداز کی چار حاشیہ دھوتی کے ساتھ بنیان پہنے ایک چارپائی پر آرام فرما رہے تھے۔ فوراً چارپائی سے اٹھے اور کہنے لگے کہ کیا میں اب لاہور چلا جاوں ۔ میں نے ان کو بتایا کہ ٹیکنگ اوور کے کچھ اصول ہوتے ہیں تو تب انہوں نے دفتر کو سرکاری انداز میں میرے حوالے کیا۔ یوں گدا، گرما اور گورستان کے حوالے سے جانے پہنچانے شہر میں میری ملازمت کا آغاز ہوچکا تھا۔ اسٹاف سے تعارف ہوا تو بڑا کثیر النسلی عملہ تھا۔ کوئی پنجابی تھا تو کوئی سرائکی ، کوئی روہتکی اور کوئی اردو بولنے والا۔ ان سب کے دوران ایک توازن قائم رکھنے میں کئی دن لگ گئے۔