انیس سو ترانوے کے انتخابات۔۔۔اب کس کی تھی باری
تحریر: محمد لقمان
ایران سے واپس پاکستان آیا تو ابھی بھی عام انتخابات کے انعقاد میں تقریبا ایک ہفتہ باقی تھا۔ میری غیر موجودگی میں محمود احمد خان (جو بعد میں میک لودھی) کے نام سے جانے پہنچانے گئے، نے الیکشن کمیشن سے متعلق خبریں فائل کرتے رہے تھے۔ واپسی پر دوبارہ مجھے یہی ذمہ داری دے دی گئی۔ ہر روز الیکشن کمیشن کے دفاتر کے چکر لگانا ایک معمول بن گیا تھا۔ لگ یہی رہا تھا کہ اب کے بار پیپلز پارٹی کی سرکار آئے گی۔ ہے۔ صدر غلام اسحاق خان کی رخصتی کے بعد سینٹ کے چیرمین وسیم سجاد عبوری صد ر بن چکے تھے جبکہ نگران وزیر اعظم کی ذمہ داری معین احمد قریشی نبھا رہے تھے۔ پنجاب میں نگران وزیر اعلی سابق بیوروکریٹ شیخ منظور الہی تھے۔ وہی پرانی سیاست جاری تھی۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو ایک دوسرے پر الزامات لگا کر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کر رہے تھے۔ طاقتور قوتوں کے لئے ایسی صورت حال ہمیشہ فائدہ مند ہوتی ہے۔ آخر چھ اکتوبر کو انتخابات ہوئے اور پیپلزپارٹی چھیاسی سیٹوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی ابھری۔ مسلم لیگ ن تہتر سیٹوں کے ساتھ دوسری بڑی پارٹی تھی۔ مگر یہ بات طے تھی کہ اس بار ن لیگ کی حکومت نہیں آئے تھی۔ یہ بالکل انیس سو نوے کے انتخابات کا ری رن تھا جس میں آئی جے آئی بنا کر نواز شریف کو وزیر اعظم بنایا گیا تھا۔ بیس اکتوبر کو بے نظیر بھٹو نے دوسری مرتبہ وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔ اس بار بے نظیر بھٹو نے پنجاب میں ماضی کے تلخ تجربے کی بنیاد پر اکثریت نہ ہونے کے باوجود بھی ن لیگ کے وزیر اعلی کی بجائے اپنا وزیر اعلی لانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے لئے مسلم لیگ کا باغی گروپ مدد کے لئے تیار کھڑا تھا۔ غلام حیدر وائیں کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد منظور ہونے کے بعد منظور وٹو وزیر اعلی بنے گئے تھے۔ پیپلزپارٹی نے انتخابات جیتنے کے بعد وٹو کو دوبارہ وزیر اعلی بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ صرف سترہ سیٹیں حاصل کرنے والی جماعت یعنی مسلم لیگ جونیجو کا سربراہ وزیر اعلی بن رہا تھا۔ اس کی بنیاد مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے درمیان شریکے کا رشتہ تھا۔ اور دشمن کا دشمن تو دوست ہوتا ہے۔ یوں بیس اکتوبر کو پنجاب میں نہ ن لیگ کا کوئی وزیر اعلی بنا اور نہ پیپلزپارٹی۔ ایک بار پھر اوکاڑہ کے گاوں وساوے والا کے رہائشی منظور وٹو کے سر پر پاکستان کے سب کے بڑے صوبے کی حکمرانی کا تاج سجا دیا گیا تھا۔ بڑے عرصے کے بعد لاہور کا پنجاب کی سیاست میں رول کم ہوا تھا۔
صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں حکومت کا خاتمہ بھی بے نظیر بھٹو کے لئے ایک تلخ تجربہ تھا۔ اس لیے پیپلزپارٹی نے اپنا صدر لانے کا فیصلہ کیا۔ یوں بے نظیر کے بہت قریبی ساتھی تیرہ نومبر دو ہزار ترانوے کو ملک کے آٹھویں صدر بن گئے۔ کیا اتنی تبدیلیوں کے بعد پیپلزپارٹی سیف زون میں آگئی تھی۔ یقیناً ایسا نہیں تھا۔
اس کا اندازہ بے نظیر بہت جلد ہونے لگا تھا۔