تحریر: محمد لقمان
ایک مرتبہ پھر ڈینگی مچھر نے ملک بھر میں تباہی مچا دی ہے۔۔اس بار ایڈیس ایجپٹائی قسم کے مچھر سے متاثر ہونے والے زیادہ تر افراد کا تعلق پنجاب کے شمالی اضلاع خصوصاً راولپنڈی سے ہے۔ پاکستان کی وزارت صحت کے مطابق اب تک بیس ہزار کے قریب افراد ڈینگی مچھرکے ڈنگ سے متاثر ہوئے ہیں۔ اور ان میں سے سولہ زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔
گذشتہ دو دہائیوں سے پاکستان میں ڈینگی ہر سال جولائی سے اکتوبر میں ہزاروں افراد کو متاثر کرتا ہے۔ کئی مرتبہ تو نومبر میں بھی یہ اپنی کاروائی جاری رکھتا ہے۔ 2011ء میں اس مرض سے قریب تین سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ڈینگی بخار مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔ مریض کی ہڈیاں دکھتی ہیں اور یہ علامات قریب دس دن تک رہتی ہیں۔ کچھ کیسز میں مریض کے جسم میں خون کا رسنا موت کا سبب بن جاتا ہے۔
2011 کی وبا کے بعد کئی سال تک ڈینگی مچھر سے پھیلنے والے بخار کے کیسز میں حیرت انگیز طور پر بہت کمی رہی۔۔مگر 2017 میں ڈينگي کي وبا نے دوبارہ سر اٹھا ليا ۔ اس بار اس کا ٹھکانہ پنجاب کے ميداني علاقے نہيں، بلکہ خيبر پختون خوا خصوصاً پشاور اس کا نشانہ تھے ۔ تقریبا 95 ہزار کے قریب متشبہ مریض پشاوراور کے پی کے دیگر اضلاع کے ہسپتالوں ميں آئے۔ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت کے لئے یہ ایک نیا مسئلہ تھا۔ ۔پاکستان ميں ڈينگي مچھر کي موجودگي کوئی نئی بات نہیں ۔ ايک دہائي سے زائد عرصہ پہلے بھی ایڈیس ایجپٹائی نسل کا یہ مچھر پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے مختلف ملکوں میں پایا جاتا رہا ہے۔ مگر اس سے پھیلنے والی تباہی کا احساس پاکستانیوں کو تقریباً سات سال پہلے ہوا۔ نومبر 2010 ميں ڈينگي بخار ميں 21 ہزار سے زائد افراد کي تشخيص ہو چکي تھي۔مگر اس کي ايک بڑي وبا کا سامنا سال 2011 ميں کرنا پڑا۔ اس وقت بيماري کا مرکز لاہور اور پنجاب کے ديگر بڑے شہر تھے۔ صرف ايک سال ميں پنجاب ميں ڈينگي کي وجہ سے 300 اموات ہوئيں۔ مرنے والوں میں معاشرے کے کئی ممتاز افراد بھی شامل تھے۔
پنجاب کے صوبائی سیکرٹری معدنیات ، عطااللہ صدیقی، پنجاب پبلک سروس کمیشن کے رکن غیاث الدین اور رکن پنجاب اسمبلی ممتاز ججا کی موت بھی ڈینگی بخار کی وجہ سے ہوئی۔ پنجاب میں مختلف منصوبوں پر کام کرنے آٹھ چینی انجینرز بھی اس بیماری کا شکار ہوئے مگر بعد میں صحت یاب ہوگئے۔ ن لیگ کی حکومت کے لئے یہ ایک چیلنج تھا۔ یہی ڈینگی کے خلاف جنگ کا دور تھا جب پی ٹی آئی کے چیرمین عمران خان نے شریف برادران کو ڈینگی برادرز کا خطاب دیا۔ اس وقت چونکہ پاکستانيوں کے لئے يہ نئي بيماري تھي۔ اس ليے اموات کي شرح زيادہ رہي۔ 14000 سے زائد افراد کو انفکيشن ہوئي اور مہينوں علاج کرانے اور گھروں پر رہنے کے بعد يہ لوگ اپنے کام پر واپس آسکے۔ گويا پاکستان کو ڈينگي کي وجہ سے ايک بڑي معاشي قيمت چکانا پڑي۔ وبا کے شروع میں حکومتی رد عمل کچھ زیادہ بہتر نہیں تھا۔ کیونکہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ پہلے مچھر کو ختم کیا جائے یا مچھر سے بچنے کے طریقوں کو اپنایا جائے۔ اس سلسلے میں سری لنکا اور تھائی لینڈ کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ سری لنکا کو ڈینگی سے نمٹنے کا پچیس سالہ تجربہ تھا۔ تھائی لینڈ کو بھی بار بار اس وبا کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ حکومتی کوششوں سے بالآخر سری لنکا سے ڈاکٹروں کی بارہ رکنی ٹیم لاہور پہنچی اور پاکستانی ڈاکٹروں سے اس موذی مرض سے نمٹنے کی تربیت دی۔ اسی طرح انڈونیشیا سے ماہرین کی 20 رکنی ٹیم پاکستان آئی اور ڈنگی سے نمٹنے میں مدد گار ثابت ہوئی۔ عالمی ادارہ صحت نے بھی ڈینگی سے نمٹنے کے لئے اصول وضح کرکے دیے۔ آنے والے سالوں میں آہستہ آہستہ ڈینگی کا مرض کم ہوتا گیا اور سال 2017 تک تو پنجاب میں اس مرض کے بہت کم کیسز رپورٹ کیے گئے ہیں۔
کئی سال تک ڈینگی سے لڑنے کا پنجاب کے پاس اتنا تجربہ تھا کہ 2017 میں اس نے خیبر پختون خوا میں انسداد ڈینگی ٹیمیں پشاور بھیجیں اور وبا کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس بار بھی ملک کے مختلف حصوں میں ڈینگی کی وبا نے سر اٹھا یا ہے۔ مگر ابھی تک مچھر کو کنٹرول کرنے میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی۔
کیا ایڈیس ایجپٹائی کا حل کیڑے مار ادویات ہی ہیں۔ اس سوال کا جواب یقیناً ہاں میں نہیں ہوسکتا۔ کیوںکہ ہر سال پچھتر ارب روپے کا انسیکٹیسائڈ استعمال ہونے کے باوجود بھی مچھر کو مستقل طور پر قابو نہیں کیا جاسکتا۔ دیگر ممالک میں مچھروں میں جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعے مچھر کو کنٹرول کیا گیا ہے۔ حال ہی میں ملائشیا میں ڈینگی کے مرض میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔ اس کی وجہ مچھروں میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں پیدا کی گئی ہیں۔ جس کی وجہ سے مادہ مچھر پیدا نہیں ہوتے اور اگر پیدا ہو بھی جائیں تو ان میں انسانوں میں کاٹنے کی صلاحیت نہیں رہتی۔ اس کے لئے ایڈیس ایجپٹائی مچھروں میں ایک خاص بیکٹیریا کے جینز شامل کر دیے جاتے ہیں۔ اور نئے تخلیق شدہ مچھروں کو فضا میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اور دیگر مچھروں سے مل کر ایسی نسل پیدا کرتے ہیں جو کہ ڈینگی اور ملیریا کے امراض پیدا نہیں کرسکتی ۔ برطانیہ کی ٹارگٹ ملیریا نامی تنظیم نے افریقی ملک برکینا فاسو میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ مچھروں کو فضا میں چھوڑ کر ملیریا میں کمی کا کارنامہ انجام دیا ہے۔ پاکستان میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے سائنسدانوں نے 2016 میں ایسے تجربات کیے تھے اور کامیابی کا دعوی بھی کیا تھا۔ مگر اس کے بعد یہ بات دوبارہ سنائی نہیں۔ وقت آگیا ہے کہ حکومت ایسے تجربات میں اپنا کردار ادا کرے تاکہ ڈینگی کے مرض کا مستقل حل نکالا جاسکے۔