تحریر: محمد لقمان
ايک وقت تھا کہ لاہور اور کراچي کي ايرپورٹس سے عقاب اور ديگر قيمتي پرندوں کي اسمگلنگ کي کوشش ہوتي تھي۔اسمگلنگ ميں کاميابي کي صورت ميں ملوث افراد کے پو بارہ ہوجاتے۔مگر پکڑے جانے کي صورت ميں ناصرف قيمتي پرندوں سے ہاتھ دھونے پڑتے بلکہ کئي سالوں تک جيل بھي مقدر بن جاتي۔ مگر اب تو پل کے نيچے سے بہت زیادہ پاني گذر گيا ہے۔ ايک روز ميں ہي امير بننے کے خواہش مند ناياب آبي مخلوق خصوصاً دريائي کچھووں ، سانپوں کي مختلف اقسام اور چھپکليوں کي اسمگل کرکے ڈالرز کمانے کے چکر ميں ہيں۔ جب ايک دريائي کچھوے کي نادر قسم کي بيرون ملک ڈھائي ہزار ڈالرز قيمت ہو تو جان پر کھيل پر بھي پچاس ساٹھ کچھووں کو بيرون ملک بيچنے کي ہر کوئي کوشش کرسکتا ہے۔
اب تو سانپ اور مگر مچھ کي کھال بھي اچھا خاصا منافع کا سودا بن گيا ہے۔ رہي سہي کسر عرب ممالک سے آنے والے امرا پوري کرديتے ہيں جو پچھلي چار دہائيوں سے سائبيريا سے پاکستان آنے والے تلور اور مرغابيوں کا شکار کرنے جنوبي پنجاب، بلوچستان اور بالائي سندھ ہر سال آتے ہيں۔ اور مملکت عزيز ميں حياتياتي تنوع کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہيں۔ اس سال خیبر پختون خوا حکومت نے تلور کے شکار کے لئے آئے عرب شہزادوں کو اجازت دینے سے انکار کردیا تھا۔ مگر ملک کے دیگر حصوں میں خارجہ پالیسی کے تحت اب بھی شکار کی اجازت دی جارہی ہے۔
جانوروں کے غير قانوني تجارت کا ايک نيا ھدف ايک بڑا ہي معصوم اور محنتي جانور ہے۔ جب سے چين ميں گدھے کي کھال سے نت نئي دوائياں بنني شروع ہوئي ہيں۔ کئي افريقي ممالک نے چين کو گدھوں کي قانوني برآمد شروع کردي ہے۔ مگر بھارت اور پاکستان ميں اب غريب اور بے روزگار افراد اب جادو کے چراغ کو ڈھونڈنے کي بجائے لاوارث گدھے کے حصول کو ترجيح ديتے ہيں۔ ايک رپورٹ کے مطابق بھارتي رياست مدھيہ پرديش ميں اب شيروں کي بجائے گدھے کي جان کو زيادہ خطرہ لاحق ہے۔
پاکستان کے صوبے پنجاب ميں ديہاتي سے گدھے چوري ہونے کے واقعات تو کئي سالوں سے جاري ہيں۔ مگر اس کے محرکات اس وقت سامنے آئے جب گدھے کي کھالوں کو غير قانوني طور پر بيرون ملک بھيجنے کي کوشش کي گئي۔ گدھے کي کھال کي برآمد پر تو 2015 ميں پابندي لگا دي گئي تھي۔ مگر اس کو چين اسمگل کرنے کي کوششيں اب بھي وقفے وقفے سے جاري ہيں۔ پچھلے ماہ گدھوں کي ہزاروں کھالوں کو کراچي سے برآمد کرنے کي کوشش ناکام بنا دي گئي۔ يہ کھاليں لاہور سے کراچي لائي گئي تھيں۔ گويا کہ گينڈے کے سينگ اور ہاتھي کے دانت کے بعد گدھے کي مہنگي کھال بھي شکاريوں کا نيا نشانہ بن گيا ہے۔ اس محنت کش جانور کا بس ایک ہی قصور ہے کہ اس کی اپنی قیمت پندرہ ہزار روپے جبکہ کھال کی قیمت 20 ہزار روپے ہے۔ گویا کہ گدھے کو قتل کرنے کا محرک اس کی مہنگی کھال ہے۔ اور اس کا جو گوشت بچتا ہے وہ کہاں جاتا ہے۔ اس کے بارے میں مختلف سازشی مفروضے ہیں۔ کچھ لوگ تو یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ گوشت لاہور اور دیگر بڑے شہروں کے ہوٹلوں میں بک جاتا ہے۔ اس کا توڑ خیبر پختون خوا حکومت نے یہ نکالا ہے کہ گدھے کی افزائش کے فارم بنا لیے ہیں جہاں سے زندہ جانور چین کو برآمد کیے جائیں گے۔ ایسے ہی منصوبہ پنجاب حکومت نے بہادر نگر فارم پر شروع کیا ہے جہاں لاسی اور دیسی نسل کے گدھوں کی افزائش کی جائے گی۔ اس سے گدھے کی نسل بھی بڑھے گی اور برآمد کی وجہ سے اس کا گوشت بکنے کے امکانات بھی کم ہو جائیں گے۔ زندہ جانوروں کو برآمد کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مگر اتنی تعداد ہی دوسرے ملکوں میں بھیجی جائے جس سے پاکستان میں حیاتیاتی تنوع متاثر نہ ہو۔