تحریر: محمد لقمان
آج کل میں ہر صبح کا آغاز گوگل سرچ میں اسرائیل اور غزہ کے کلیدی الفاظ لکھ کر کرتا ہوں اور اس خبر کا انتظار کرتا ہوں کہ شاید غزہ میں اسرائیلی حملے رک گئے ہوں۔ رات کو سونے سے پہلے بھی دنیا بھر کے اخبارات دیکھتا ہوں کہ کوئی اچھی خبر نظر آجائے۔۔ مگر خبروں کو پڑھ کر بے چینی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ مسلم دنیا میں جاری یہ دور آشوب ختم ہونے کو ہی نہیں آرہا۔ سب سے زیادہ افسوس 57 ممالک کے رویے سے ہوتا ہے۔ جن میں بہت ساروں کے ابھی بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں۔ انڈونیشیا کے تو دفاعی روابط بھی ہیں۔ اردن ، متحدہ عرب امارات جیسے ممالک نے اپریل میں ایران کی طرف سے اسرائیل پر ہونے والے حملوں کو ناکام بنانے میں تل ابیب کی مدد کی تھی۔ باقی ممالک نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ اسرائیل کے لئے تو جیسے پورا عالم اسلام ایک چراہ گاہ بن گیا ہے۔ جب چاہے بیروت پر حملہ کردے ، تہران میں موجودہ حماس کے رہنما اسماعیل ھانیہ کا قتل کردے یا یمن میں حوثیوں پر فضائی حملے کرے۔ لگتا ہے کہ جیسے اسرائیل کے لئے جغرافیائی سرحدیں پگھل گئی ہیں۔ ہرطرف ایک بے چینی اور اضطراب کی کیفیت ہے۔
عالم اسلام میں ایسی صورت حال پہلی دفعہ نہیں ہے۔
خلافت عباسیہ سے لیکر موجودہ دور تک درجنوں دفعہ ایسے مواقع آئے ہیں۔ بچپن میں نسیم حجازی کے تاریخی ناول بہت پسند تھے۔ عالم اسلام کی تاریخ کو اتنے دلچسپ انداز میں لکھا ہوتا تھا کہ ایک ہی نشست میں پورا ناول ختم کردیتا۔ ان میں سے آخری چٹان پڑھ کر ایک عجب سی بے چینی ہوتی تھی اور اس دور کے عالم اسلام پر ترس آتا تھا۔ ناول کا ہیرو طاہر بن یوسف بغداد کی مساجد میں جا کر منگولوں کے خلاف جدوجہد کے لئے لوگوں کو ابھارتا تو اکثر ان سنی کردیے اور مذاق اڑاتے۔ پھر 1258 کے سال میں وہ دن آ ہی گیا جب ہلاکو خان کے لشکر نے بغداد پر حملہ کردیا اور ہر چیز تہس نہس کردی۔ وسطی ایشیا سے بھاگے خوارزم شاہ نے دہلی کے سلطانوں سے مدد مانگی تو انہوں نے نام نہاد حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مدد سے انکار کردیا۔ اس دور کی وسطی ایشیائی مسلم ریاستوں اور عالم اسلام کے عروس البلاد بغداد کے باسیوں کے دلوں میں جتنی بے چینی اور بے بسی تھی۔ اس کا اظہار آخری چٹان ناول کے ہر لفظ سے ہوتا ہے۔ اسی قسم کے حالات سے 1492میں موجودہ اسپین کے مسلم علاقے غرناطہ اور اشبیلیہ بھی گذرے۔ 19 ویں صدی کے وسط میں برصغیر میں انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کے دنوں میں بھی دلی سمیت شمالی ہند کے اکثر علاقوں میں ایسی ہی صورت حال نظر آئی۔ اردو کے معروف شاعر مرزا اسداللہ خان غالب نے 1857 کے واقعات کو دور آشوب سے تعبیر کیا ہے۔
قیام پاکستان کے موقع پر مشرقی پنجاب کے اضلاع میں ہی ایسی ہی کیفیت تھی۔ میرے والد مرحوم جو کہ قیام پاکستان کے موقع پر 20 سال کے لگ بھگ تھے۔ انہوں نے اس بے بسی اور بے چینی کا خود تجربہ کیا۔ جب ہمسائے میں رہنے والے ہندو خاندانوں نے بموں سے مسلمان گھرانوں پر حملہ کیا۔ تو اعتبار کے تمام رشتے ٹوٹ گئے۔ میرے والد کے کئی رشتہ دار ان حملوں میں شہید ہوئے۔ سال 2000 میں ان کی وفات ہوئی مگر وہ جب بھی ان واقعات کا ذکر کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ میں ان کے احساسات کو کبھی بھی پوری طرح سمجھ نہیں سکا تھا۔ انیس سو ستر کی دہائی میں برما کے روہنگیا مسلمان پاکستان کے ہر شہر میں آئے اور وہ اپنی داستانیں سنا کرہمدردیاں اور مالی امداد سمیٹتے رہے۔ افغانستان میں روسی افواج کے مظالم بھی زبان زد عام ہوئے۔ شام ، لبیا ، عراق اور افغانستان میں بھی اس وقت بھی ایسی ہی صورت حال جاری ہے۔ آخر یہ ادوار آشوب مسلسل کئی صدیوں سے مسلم دنیا کو کیوں اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں۔ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ مسلم دنیا نے اچھے دنوں میں برے دنوں کے لئے کبھی بھی تیاری نہیں کی۔ سلطنت مغلیہ ہو یا سلطنت عثمانیہ، کسی نے معاشی اور دفاعی ترقی کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ یونیورسٹیاں نہیں بنائیں۔ انسانی وسائل کی ترقی کی بجائے انسانوں کو رعایا اور غلام بنانے پر ہی زور دیا۔ جن دنوں یورپ نشاط ثانیہ کے دور سے گذر رہا تھا ہمارے ہاں خوبصورت باغات ، مساجد اور مقبرے تعمیر ہو رہے تھے صنعتوں کا کسی نے نہیں سوچا تھا۔ مغنیوں سے گیت تو سنے جا رہے تھے کسی سنجیدہ مسئلے پر تحقیق نہیں کی گئی۔ پھر جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ بقول شاعر قدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے۔ ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات