خار زار صحافت۔۔۔قسط ایک سو چوبیس

0
605


نائین الیون اور پاکستانی صحافی
تحریر: محمد لقمان

نائین الیون کے بعد امریکہ نے جب افغانستان پر حملہ کیا تو اس کے سیاسی اور معاشی اثرات پاکستان پر بھی آئے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کے کئی شعبوں کو اس کے فوائد بھی ملے۔ ان میں ایک شعبہ صحافت کا تھا۔ طالبان کے خلاف امریکی مہم جوئی کی کوریج کے لئے مغربی میڈ یا کے اداروں خصوصاً ٹی وی چینلز نے اپنے نمائندے پاکستان کے راستے جنگ زدہ افغانستان میں بھیجے۔ تو ان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ زبان کا تھا۔ اس کے لئے انہوں نے پڑھے لکھے پشتون نوجوانوں کی خدمات حاصل کیں ۔ جو ان کے لئے پشتو مترجم کے طور پر کام کرتے رہے۔۔ یوں اس زمانے کے شمال مغربی سرحدی صوبہ خصوصاً پشاور کے نوجوانوں کو روزگار کے اچھے خاصے مواقع حاصل ہوگئے۔ مگر ان حالات میں کئی صحافیوں کو بطور افغان امور کے ماہرین کے طور پر اپنے آپ کو منوانے کا موقع بھی مل گیا۔ ان میں سر فہرست رحیم اللہ یوسفزئی (مرحوم) ، اسماعیل خان، کمال حیدر اور طاہر خان تھے۔ جیو نیوز کے اینکر پرسن سلیم صافی کو بھی اپنے آپ کو آگے بڑھانے کا موقع ملا۔ اس جنگ سے پہلے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے احمد رشید اور پشاور کے رحیم اللہ یوسف زئی کو طالبان اور افغانستان کے امور پر دسترس کے حامل سمجھا جاتا تھا۔ خا ص طور پروسطی ایشیا اور پاکتان پر کئی کتابوں کے مصنف احمد رشید تو نائن الیون سے چند سال پہلے طالبان پر کتاب لکھ کر مغربی دنیا میں اپنی بطور افغان امور کے ماہر کے طور پر پہچان بنا چکے تھے۔ اسماعیل خان جو کہ روزنامہ ڈان کے پشاور میں ریزیڈینٹ ایڈیٹر تھے، کو افغانستان میں بدلتی صورت حال کی وجہ سے نیویارک ٹائمز کے اسٹرنگر کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا اور اس دور میں افغان صورت حال پر اپنی رپورٹنگ کی وجہ سے بہت نام کمایا۔ رحیم اللہ یوسف زئی نائن الیون کے وقت دی نیوز کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر اور بی بی سی پشتو کے نمائندے تھے۔ ان کو مختلف طالبان رہنماوں کے خصوصی انٹرویوز کرنے کا موقع ملا اور یوں دنیا بھر میں ان کی ایک پہنچان بن گئی۔ ۔ طاہر خان نجی نیوز ایجنسی این این آئی کے نمائندے تھے۔ ان کو کئی مغربی اخبارات اور ٹی وی چینلز کے لئے کام کرنے کا موقع ملا۔ کئی طالبان رہنماوں سے اچھے تعلقات کی وجہ سے ان کی رپورٹس کو مستند سمجھا جاتا تھا۔ ایک اور صحافی جن کو نائن الیون کی وجہ سے آگے آنے کا موقع ملا وہ کمال حیدر تھے۔ انہوں امریکہ کی طرف سے شروع کی گئی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو قندھار میں بطور نمائندہ سی این این کور کیا۔ ان کے پاکستانی مقتدر حلقوں میں اچھے تعلقات تھے۔ اب کچھ بات ہوجائے ایک غیر پشتون صحافی کی جنہوں نے اس دور میں افغان امور کے ماہر کے طور پر نام کمایا۔۔۔وہ حامد میر تھے۔ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے القائدہ کے بانی اسامہ بن لادن سے افغانستان میں ملاقات کی اور انٹرویو بھی کیا۔ مگر کئی صحافی ایسے بھی تھے جنہوں نے صحافتی خدمات کی بجائے دیگر خدمات کے ذریعہ اپنی غربت کو دور کیا۔ ان میں ایک ٹی وی اینکر بھی شامل تھے۔ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مٖغربی صحافیوں کو کرائے پر گاڑیاں دیا کرتے تھے۔ گویا کہ جنرل مشرف کی حکومت کو کولیشن سپورٹ فنڈ کے ذریعے کافی ڈالرز آتے تھے تو افغانستان پر امریکی قبضے نے پاکستانی اہل قلم کے لئے بھی روزگار کے مواقع پیدا کیے تھے۔ اس دور میں شہرت حاصل کرنے والے کئی صحافی کسی نہ کسی طرح سے اب بھی افغان امور کے ماہرین کے طور پر اپنی زندگی کا پہہ گھمائے ہوئے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here