خار زار صحافت۔۔۔قسط ایک سو تئیس

0
637


صحافت اور سیاست
تحریر: محمد لقمان

صحافتی اداروں خصوصاً سرکاری میڈیا میں ملازمین کی یونین ہمیشہ سے رہی ہیں۔ چاہے ماضی کے ٹرسٹ کے اخبار۔۔۔پاکستان ٹائمز، مشرق اور امروز ہوں یا کہ ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی)، یہ لیبر یونین کی سیاست کی نرسریاں سمجھی جاتی رہیں ہیں۔ جب انیس سو نوے میں اے پی پی میں ملازمت شروع ہوئی تو پتہ چلا کہ یہاں ٹریڈ یونین سے منسلک افراد کی بہت چلتی ہے۔ اسلام آباد ھیڈکوارٹرز میں رمضان عادل گروپ عموماً جماعت اسلامی اور دائیں بازو کا نمائندہ سمجھا تھا جب کہ اس کے مقابلے میں مراد اعوان گروپ کو روشن خیال اور ترقی پسند خیال جاتا تھا۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ یونین کی سیاست میں ملوث لوگ پیشہ وارانہ طور پر بہت زیادہ مضبوط سمجھے نہیں جاتے تھے۔ تصور یہی تھا کہ وہ اپنی نااہلی اور کام چوری کو چھپانے کے لئے ٹریڈ یونین کی سیاست کا سہارا لیتے تھے۔ اس لیے میں اور انیس سو نوے کے بیچ کے اکثر صحافی یونینز سے کئی سال تک دور رہے۔ اتنا اندازہ ضرور تھا کہ یونین کے صدر سے اے پی پی کا سربراہ اور کئی مرتبہ وزارت اطلاعات کے افسران بھی دبکتے تھے۔ اسی طاقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یونین کے لوگ اکثر اوقات اپنے اور اپنے حواریوں کے لئے مختلف سہولتیں حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔ سب ایک جیسے ہی تھے۔ لمبی داڑھی اور کلین شیو عہدیدار کا رویہ ایک جیسا ہی ہوتا تھا۔ صدر اور وزیر اعظم کے ساتھ کوریج کے نام پر بیرون ملک کے دورے یا اگلے گریڈ اور پوزیشن پر ترقی بھی یونین کے ساتھ تعلقات سے آسان ہو جاتی تھی۔ یہاں تک کہ یونین کے عہدیدار اپنے خاندان اور برادری کے لوگوں کو اے پی پی میں بھرتی کروانے کو بھی برا نہیں گردانتے تھے۔ یہ وہ وجوہات تھیں جن کی بنیاد پر کام کرنے والے افراد اے پی پی کی یونین سے دور ہی رہتے تھے۔ صرف ایک یا دو دفعہ میں اے پی پی میں اپنے طویل کیریر میں یونین کا حصہ بنا ہوں ۔ یہ سال دو ہزار دو ہا دو ہزار تین کی بات ہے کہ مجھے زیادہ اصرار سے کہا گیا کہ اپنے ساتھی رپورٹر رب نواز باجوہ کی قیادت میں پینل کا حصہ بن کر نائب صدر کی پوزیشن کے لئے انتخابات لڑوں۔۔۔اتفاق کی بات ہے کہ میں وہ انتخابات جیت گیا۔ مگر ہم اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں اتنے الجھے رہے کہ ابھی بھی اے پی پی لاہور کی یونین کی تاریخ میں اس سال کو بہت اچھا سال سمجھا نہیں جاتا۔ کیونکہ میں اس دور میں کسی بھی جرنلسٹ یا نان جرنلسٹ کے کسی بھی ناجائز کام میں مددگار نہیں بنا۔ یونین کی بنیاد پر انتخابات میں تقسیم کئی مرتبہ بعد میں ذاتی دشمنی میں بدل جاتی تھی۔ ایک مرتبہ تو اے پی پی لاہور میں جھگڑا ہوگیا۔ محمود احمد خان جو کہ بعد میں میک لودھی کے نام سے مشہور ہوئے، نے نیوز ڈیسک کے سینیر ایڈیٹر ظہورالدین بٹ مرحوم کے منہ پر مکہ مار کر زخمی کردیا۔ معاملہ پولیس تک پہنچا۔ جب دوسرا گروپ غالب آتا ہوا نظر آیا تو مشہور صحافی مجیب الرحمان شامی کے پاس فیض الرحمان صاحب ، ظہورالدین بٹ اور راقم الحروف جیل روڈ پر ان کے دفتر روزنامہ پاکتان پہنچے۔ وہ بڑے تپاک سے ملے۔ ہم نے اس معاملے میں ان کی مدد چاہی تو شامی صاحب نے حسب عادت ہماری بات پوری طرح سنی مگر کسی قسم کی مدد نہیں کی۔ یہی معاملہ بعد اس دور میں اے پی پی کے ڈائریکٹر جنرل فضل الرحمن ملک تک پہنچا تو وہ لاہور آئے اور سب کو باری باری بلا کر سیاست سے دور رہنے کی تلقین کی۔ مگر یونین کی سیاست کرنے والا کیسے اس عمل سے دور رہ سکتا ہے۔ یوں بعد میں بھی ہر سال دھنگا فساد ہوتا ہی رہا۔ میں نے یونین کی بدولت اجتماعی مفاد کے لئے کام ہوتے بہت کم دیکھا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ میں لاہور پریس کلب کا رکن رہا مگر کبھی بھی پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے کسی دھڑے میں بھی شامل نہیں ہوا۔ کئی مرتبہ رکن سازی کے فارم بھرے گئے اور رکنیت کی فیس بھی کسی اور نے دی۔ اس کے باوجود بھی میں کسی یونین کا حصہ نہ بن سکا۔ جس کی وجہ سے بعد میں مجھے اپنے کیریر میں نقصانات بھی ہوئے۔ کیونکہ کسی بھی میڈیا گروپ میں اچھی پوزیشن اور بہتر پیکج کے لئے کسی مضبوط لابی سے منسلک ہونا بہت ضروری رہا ہے۔ مگر میں اپنے مزاج کی وجہ سے کبھی بھی ایسا نہ کرسکا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here