خار زار صحافت۔۔۔قسط ایک سو اکسٹھ

0
7

بلدیاتی انتخابات اور ضلع ناظمین

تحریر: محمد لقمان

سال دو ہزار کے دسمبر میں جنرل پرویز مشرف نے جمہوریت کی لپٹی ہوئی بساط کو دوبارہ بچھانے کی کوشش کی اور ملک میں مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات کروانے کا اعلان کیا۔۔۔ انتخابات کی کوریج کے لئے میری ڈیوٹی پنجاب کے دور افتادہ ضلع لیہ میں لگائی گئی۔ میں نے لیہ جانے سے پہلے  اپنی بیوی اور بیٹی کو فیصل آباد میں اپنے آبائی گھر چھوڑا اور بس کے ذریعے لیہ روانہ ہوگیا۔ الیکشن حکام نے صحافیوں کو ضلع لیہ کے مختلف علاقوں میں پولنگ کے عمل کی مانیٹرنگ کے لئے پورے انتظامات کیے ہوئے تھے۔ مجھے پہلی مرتبہ لیہ جانے کا موقع ملا تھا۔ ملتان میں پوسٹنگ کے دوران صدر فاروق لغاری کی سرگرمیوں کی کوریج کے لئے مہینے میں کم ازکم دو مرتبہ ڈی جی خان جانا پڑتا تھا۔ مگر نواحی ضلع لیہ کبھی نہیں جاسکا تھا۔ بس فیصل آباد سے روانہ ہو کر جھنگ اور چوک اعظم سے ہوتی ہوئی لیہ پہنچی۔ صحافیوں کے لئے ایک درمیانے سے ہوٹل میں انتظام کیا ہوا تھا۔ جس کا کرایہ جہاں تک مجھے یاد ہے ایک رات کا چار سو سے پانچ سو روپے تک تھا۔ بستر واجبی تھا اور دیواروں پر سیلن تھی۔ سیلن کی وجہ سے ایک عجب سی بو در ودیوار میں سمائی ہوئی تھی۔ شام کو لیہ پہنچا تھا۔ اس لیے اگلی صبح کو جلد اٹھنے کی مجبوری کی وجہ سے سر شام ہی میں بستر پر دراز ہوگیا۔ ابھی چند گھنٹے ہی گذرے تھے کہ کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو باہر ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر ابراہیم کیوان کو پایا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے الگ کمرہ کرائےپر لینے کی بجائے میرے کمرے میں موجود دوسرے بیڈ پر سونے کا فیصلہ لیا تھا۔ اگلی صبح لیہ کے پولنگ سٹیشنز پر جانے کے بعد تحصیل چوبارہ بھی جانے کا موقع ملا۔ مجھے پہلی مرتبہ پتہ چلا کہ تھل کے صحرا میں تحصیل چوبارہ کے علاقے بھی شامل ہیں۔ صحرا کا موسم بھی عجب ہوتا ہے۔۔ تیس دسمبر کی صبح بڑی تیز اور ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ ہمیں دو سے تین پولنگ سٹیشنز پر لے جایا گیا اور اس کے بعد واپس لیہ میں اپنے ھوٹل میں آگئے۔۔ رات کے کھانے کے بعد چیک آوٹ کا موقع آیا تو کئی صحافیوں نے اپنے دفاتر جمع کروانے کے لئے پندرہ سو روپے فی رات کے دو دو دنوں کے بل بنوا لیے۔ واقعی لالچ کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ لاہور واپسی سے پہلے فیصل آباد گیا اور اپنی فیملی کو لے کر واپس آگیا۔ دو ہزار ایک میں ضلع لاہور میں انتخابات ہوئے ۔ جنرل تنویر حسین نقوی کے تشکیل کردہ ضلعی حکومتوں کے نظام کے تحت لاہور میں  لاہور سمیت پنجاب کے اضلاع میں ناظم کے انتخابات ہوئے۔ جولائی دو ہزار ایک میں لاہور کے ناظم اعلی کے انتخابات ہوئے تو میاں عامر محمود کا مقابلہ جماعت اسلامی کے حافظ سلمان بٹ سے تھا۔ حافظ سلمان بٹ چونکہ میٹرک میں میرے بھائی ڈاکٹر احسان الہی کے کلاس فیلو رہے تھے۔ اس لیے میں جانتا تھا کہ وہ  ایک شریف اور صاف گو انسان ہیں اور جیتنے کی صورت میں وہ لاہور کے لئے ایک نعمت ثابت ہوں گے۔ مگر صاحبان اقتدار کی منشا بالکل مختلف تھی۔ بہر حال لاہور کے ناظم اعلی کے انتخاب کی کوریج کی ذمہ داری اسلام آباد سے ٹرانسفر ہو کر آئے لطیف کیانی کے ذمے لگ گئی تھی۔ جب شام کو نتائج کا اعلان ہونے کا وقت آیا تو لطیف کیانی نے حافظ سلمان بٹ کی کامیابی کی خبر اے پی پی سے چلا دی۔ مگر بعد میں سرکاری نتائج کے مطابق میاں عامر محمود کامیاب قرار دیے گئے تھے۔ اے پی پی کی خبر کو بنیاد بنا کر جماعت اسلامی کئی روز تک دھاندلی کا الزام لگاتی رہی۔ لطیف کیانی نے کبھی نہیں بتایا کہ آخر کن بنیادوں پر انہوں نے حافظ سلمان بٹ کی کامیابی کی خبر فائل کی تھی ۔ ایک چوتھائی صدی گذرنے کے بعد ابھی تک یہ ایک معمہ ہی ہے۔ میاں عامر محمود کی زندگی میں لاہور کا ناظم بننا ان کی آئندہ زندگی میں ترقی کے لئے ایک بڑا زینہ ثابت ہوا اور وہ فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے قریب سے قریب تر ہوتے گئے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here