کیا عظیم سیاست دان تھے
تحریر: محمد لقمان
انیس سو اسی اور نوے کی دہائی میں لاہور کے صحافیوں کو ہفتے میں کم از کم ایک دن ریلوے اسٹیشن کے قریب بوہڑ چوک ضرور جانا پڑتا تھا۔ اور ہر کسی کی منزل نکلسن رو ڈ پر واقع ایک عمارت ہوتی تھی۔ جس میں پاکستانی سیاسی تاریخ کے ایک عظیم کردار نوابزادہ نصراللہ خان کی رہائش گاہ اور پاکستان جمہوری پارٹی کا دفتر تھا۔ جلسوں میں تو وہ مسحور کن خطاب فرماتے ہی تھے تو گھر کے چھوٹے سے ڈرایئنگ روم میں بھی بڑی پرھجوم پریس کانفرنسیں ہوتی تھیں۔ جب بھی پریس کانفرنس ہوتی تو دعوت کے لئے ان کے سیکرٹری مارٹن جاوید کا فون آ جاتا۔ پریس کانفرنس کا سن کر ہر انگریزی اور اردو اخبار کا صحافی وہاں پہنچ جاتا۔ چونکہ پی ٹی وی کے سوا الیکٹرونک میڈیا نہیں تھا۔ اس لیے اکثر و بیشتر صرف اردو اور انگریزی اخبارات کے صحافی ہی وہاں ہوتے۔ ڈان کے نثار عثمانی سمیت متعدد بڑے صحافیوں کو پہلی مرتبہ وہیں دیکھنے کا موقع ملا۔ مارٹن جاوید کی مہربانی سے چائے اور بسکٹ ضرور مل جاتے۔ چونکہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت کے علاوہ وہ ہمیشہ اپوزیشن میں رہے اس لیے اے پی پی کے سوا سرکاری میڈیا وہاں کم ہی نظر آتا تھا۔ میں یا اے پی پی کا کوئی دوسرا رپورٹر وہاں پریس کانفرنس کو کور کرنے پہنچتا تو بڑے پیار سے ملتے اور ساتھ ہی یہ ضرور کہتے کہ میری خبر تو آپ نے مجبوری کی وجہ جاری نہیں کرنی مگر یہاں آتے جاتے رہا کریں۔ کیا وضح داری تھی۔ اردو زبان میں شاعری بھی بہت اچھی کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے ساتھ ملاقات کے دوران اچھے شعر بھی سننے کو ملتے۔ سال دو ہزار میں مجھے ان کی حالات زندگی پر مواد تیار کرنے کا کہا گیا ۔ جس کو میں نے دفتر میں موجود اپنے کمپیوٹر میں تقریباً تین سال محفوظ رکھا۔ اس مواد کو استعمال کرتے ہوئے ستمبر دو ہزار تین میں ان کی وفات پر خبر فائل کی۔ اب نہ نوابزادہ نصراللہ خان ہیں اور نہ ہی وہ عمارت جس میں وہ دہائیوں تک مقیم رہے۔ اب وہاں اورنج ٹرین کا اسٹیشن بن چکا ہے۔ ایک اور شخصیت جن سے کبھی کبھی ملاقات کا موقع مل جاتاتھا، وہ تھے۔ جمیعت علما ئے پاکستان (نیازی گروپ) کے سربراہ مولانا عبدالستار خان نیازی۔ ہمیشہ سفید شلوار قمیض میں ملبوس رہتے اور شملے والی پگڑی ان کا طرہ امتیاز تھا۔ بڑی گرجدار آواز تھی۔ کسی جلسے میں خطاب ہوتا یا پریس کانفرنس ، مخالفین کی وہ خوب خبر لیتے تھے۔ ان کے غصے کا مزہ لینے کے لیئے صحافی ان سے کئی مرتبہ چھیڑ چھاڑ بھی کر لیتے۔ وہ فوری طور پر غصے میں آتے بعد میں شفقت کا اظہار بھی کرتے۔ انیس سو نوے کی دہائی میں اپریل فول کے موقع پر اخبارات عموماً کوئی نہ کوئی ایسی چٹ پٹی خبر شائع کر دیتے تھے جس کا حقیقت سے دور دور کا تعلق نہیں ہوتا تھا۔ خبر کے آخر میں بتا دیا جاتا تھا کہ خبر میں سچائی نہیں ۔ یہ اپریل فول کی خبر ہے۔ ایک اپریل فول پر اردو اخبار خبریں میں بیک پیج پر خبر شائع ہوئی کہ اداکارہ روبی نیازی کی شادی مولانا عبدالستار نیازی سے ہو گئی ہے۔ اس سے اگلے روز ہی سکندر روڈ گلبرگ پر جے یو پی کے دفتر میں پریس کانفرنس تھی۔ اس وقت کے نوائے وقت لاہور کے سیاسی رپورٹر ارشد باصر مرحوم نے مولانا صاحب سے اس خبر کے بارے میں سوال کردیا۔ وہ انتہائی غصے میں آگئے اور اپنی واکنگ اسٹک کے دستے کو ارشد باصر کی گردن میں ڈال کر اپنی طرف زور سے کھینچا۔ پریس کانفرنس میں موجود تمام صحافی ہنس پڑے تو مولانا کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ جمیعت علمائے پاکستان کے دوسرے گروپ کے سربراہ مولانا احمد شاہ نورانی تھے۔ ان سے کسی نہ کسی جلسے یا پریس کانفرنس میں ملاقات ہو جاتی تھی۔ بڑی مہین آواز تھی۔ انیس سو چورانوے میں فیصل آباد میں تعیناتی کے دور ان سول لائنز کے علاقے میں واقع ایک گھر میں ان کی ایک پریس کانفرنس تھی۔ وہاں پہنچا تو ڈرایئنگ روم میں ایک شخص نظر آئے جو کہ فارغ البال تھے اور دروازے کی طرف پشت کیے کرسی پر بیٹھے تھے۔ میں ان سے پوچھا کہ جناب مولانا شاہ احمد نورانی کی پریس کانفرنس کب شروع ہوگی۔ انہوں نے میری طرف مڑ کر دیکھا تو وہ شاہ احمد نورانی ہی تھے۔ انہوں نے اپنی روایتی پگڑی نہیں پہنی ہو ئی تھی۔ اس لیے پہنچان نہیں سکا تھا۔ فوراً انہوں نے پگڑی پہنی ۔ اس لیے پہچان نہ سکا۔ انہوں نے کہا کہ باقی میڈیا آجائے تو پریس کانفرنس شروع کر لیں گے۔ اس زمانے میں مسلم لیگ کے مختلف گروپوں کے رہنماوں سے بھی ملنے کا موقع ملتا تھا۔ نواز شریف اور محمد خان جونیجو تو حکمران تھے مگر مسلم لیگ قاسم کے سربراہ ملک محمد قاسم اکثر و بیشتر اپورزیشن کے رہنما کے طور ہی سیاست میں رہے۔ ان کا دفتر مزنگ اڈہ کے قریب وکلا کے چیمبرز میں تھا۔ ان کے علاوہ جماعت اسلامی کے امیر بھی لاہور میں ہی موجود ہوتے تھے۔ جن سے اکثر و بیشتر ملاقات ہوتی ہی رہتی تھی۔ لیکن چونکہ میرے پاس زیادہ تر بیٹس غیر سیاسی تھیں۔ اس لیے میرے کل کیریر سیاسی رپورٹنگ کم ہی رہی ہے۔