خار زار صحافت۔۔۔۔قسط ایک سو تیرہ

0
771
Pak-US Relations


نو گیارہ۔۔جس نے دنیا بدل کر رکھ دی
تحریر: محمد لقمان
گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کی شام کو اے پی پی لاہور کے نیوز روم میں دیگر رپورٹرز کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ ۔ تقریباً چھ بجے کا وقت تھا۔ ہر کوئی گھر جانے سے پہلے آخری خبر کو ٹائپ کر رہا تھا۔ کہ ایک دم پاکستان ٹیلی ویژن کی سکرین پر امریکی شہر نیویارک کی مشہور عمارت ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے دو طیاروں کے ٹکرانے کے منا ظر دکھائی دینے لگے۔ یہ بالکل انیس سو اسی کی دہائی کے اوائل میں کھیلی جانے والی وڈیو گیم اسپیس پائلٹ کے مناظر لگ رہے تھے۔ جس میں ایک خیالی جہاز دشمن کی عمارتوں کو تباہ کرتا ہے۔ مگر ٹی وی کی سکرین پر جو کچھ نظر آرہا تھا۔ اصلی اور حقیقی تھا۔ٹوئن ٹاور کی ترانویں منزل سے ٹکرانے والا ایک جہاز عمارت کے درمیانی حصے میں گھس گیا تھا۔ اس کے بعد آگ لگ چکی تھی۔ اس کے بعد امریکہ کے دیگر مقامات پنسلوینیا اور واشنگھٹن کی عمارتوں پر بھی طیارے ٹکرائے۔ ان میں غیر معمولی طور پر محفوظ واشنگھٹن کے نواح میں امریکی وزارت دفاع کا دفتر پینٹاگان بھی تھا۔ یہ پرل ھاربر کے بعد امریکہ پر سب سے بڑا حملہ تھا۔ ان تمام تین واقعات میں تین ہزار کے قریب افراد جان سے گئے۔ پاکستانی عوام ان مناظر کو بڑی پریشانی کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔ مگر ان کو اندازہ نہیں تھا کہ ہزاروں میل دور ہونے والے ان واقعات کے منحوس سائے پاکستان کی سلامتی پر برسہا برس منڈلاتے رہیں گے۔ اکثریت کا خیا ل تھا کہ یہ واقعہ خالصتاً امریکہ کا اپنا معاملہ ہے۔ افسوس ناک ضرور ہے۔ مگر اس کے اثرات امریکہ تک ہی محدود رہیں گے۔ مگر یہ خیال خیال رہی رہا۔ اکثریت کا ایک روائتی رد عمل تھا کہ چونکہ امریکہ دنیا بھر میں دوسری اقوام خصوصاً مسلمانو ں پر برتری ثابت کرنے کے لئے طاقت کا استعمال کرتا رہتا تھا۔ یہ اسی کا رد عمل تھا۔ گویا کہ امریکہ مخالفت جذبات کی وجہ سے بہت سارے لوگ اس عمل کو جائز قرار دے رہے تھے۔ مگر بعد میں واقعات کے ارد گرد چھائی دھند چھٹی تو پتہ چلا کہ ٹکرائے گئے جہازوں کو مبینہ طور پر القائدہ سے تعلق رکھنے والے عطا محمد سمیت چندعرب مسلمان نوجوانوں نے اغوا کیا گیا تھا اور ان جہازوں کو ہتھیاروں کے طور پر استعمال کیا تھا۔۔ امریکی شہر نیویارک کا مینر گلیانی اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ مگر امریکیوں میں غم و غصہ تھا۔ اس لیے غصے کا ہدف بھی مسلمان اور اسلام تھے۔ اس صورت حال کو دیکھ کر جنرل مشرف جو کہ اب صدر پاکستان تھے نے کور کمانڈرز کا فوری طور پر اجلاس طلب کیا۔ جس میں ابتدائی طور پر یہ طے کیا گیا کہ اس صورت حال میں پاکستان غیر جانبدار رہے گا۔ مگر بعد یہ ممکن نہ ہوسکا اور وہ پوزیشن اپنائی گئی جس کے اثرات دو دہائیوں کے بعد بھی مملکت خداداد پر ہیں ( جاری ہے)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here