خار زار صحافت،،،قسط ایک سو بارہ

0
677


جنرل مشرف: چیف ایگزیکٹو سے صدر تک
تحریر: محمد لقمان
جنرل پرویز مشرف نے پاکستان پر حکمرانی کے لٗے چیف ایگزیکٹو کا ایک نیا عہدہ تو پیدا کر لیا تھا۔ مگر بین الاقوامی اور ملکی سطح پر اس انتظامی اصطلاح سے بہت کم لوگ مانوس ہو سکے ۔ اس کے علاوہ پاکستان کی سفارتی تنہائی بھی جاری تھی۔ اسی دوران مئی میں بھارت نے جنرل پرویز مشرف کو مذاکرات کی دعوت دے دی۔ جس کو قبول بھی کر لیا گیا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اگر مشرف بطور چیف ایگزیکٹو نئی دہلی جاتے تو ان کو وہ پروٹوکول نہیں مل سکتا تھا جو کہ سربراہ حکومت یا سربراہ مملکت کو عموماً دوسرے ملک میں ملتا ہے۔ اس لئے جولائی میں ہونے والی آگرہ سمٹ سے تین ہفتے پہلے جنرل مشرف نے صدر بننے کا فیصلہ کرلیا اور بیس جون دو ہزار ایک کو جمہوری طور پر منتخب شدہ صدر رفیق تارڑ کو عہدہ چھوڑنے پر مجبور کیا اور خود صدر بن گئے۔ کسی فوجی حکمران کی طرف سے صدر مملکت بننے کا عمل پہلی مرتبہ نہیں تھا۔ اس سے پہلے جنرل ایوب خان ایک دہائی تک صدر رہے تھے۔ یحیی خان نے بھی صدارت کا مزہ دو سال سے زائد عرصے کے لئے دسمبر انیس سو اکہتر میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی تک لیا تھا۔ ضیا الحق نے بھی جمہوری طور پر منتخب صدر فضل الہی چوہدری کی جگہ لی تھی۔ اب یہی عمل جنرل پرویز مشرف نے دہرایا تھا۔ مگر اس بار طاقت کی ہوس کے ساتھ ساتھ آگرہ جانے کے لئے اپنی پوزیشن کو بہتر بنانا تھا۔ بالآخر جولائی میں جنرل مشرف بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی دعوت پر دہلی گئے اور تاریخی شہر آگرہ میں چودہ سے سولہ جولائی تک بھارتی رہنما سے مذاکرات کیے۔ اس سربراہ کانفرنس کا بنیادی مقصد تو بھارت اور پاکستان کے درمیان طویل عرصے سے موجود مسائل خصوصاً کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرنا تھا۔ آگرہ سمٹ کا آغاز میں پوری جنوبی ایشیا کی عوام میں بہت زیادہ امیدوں کے ساتھ ہوا۔ خصوصاً ان حالات میں جب کارگل کی جنگ کو ختم ہوئے بہت تھوڑا عرصہ ہوا تھا۔ اور اس کی وجہ سے پاک۔ بھارت تعلقات میں بہت زیادہ تلخی موجود تھی۔ پاک بھارت کا ہر باشندہ اس سے امید لگائے بیٹھا تھا۔

میڈیا پر اس پر بہت بحث ہو رہی تھی۔ واجپائی کے دورہ لاہور کے بعد پاک۔ بھارت تعلقات میں ایک بڑا بریک تھرو ہو سکتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ بھارت جانے سے پہلے جنرل مشرف نے کہا کہ وہ اس واجپائی کے ساتھ مذاکرات میں کھلے ذہن کے ساتھ جا رہے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اس معاملے میں لچک کا مظاہر ہ کیا۔ مگر اس کے باوجود بھی تین روزہ سربراہ کانفرنس بغیر کسی نتیجے پر پہنچ ختم ہو گئی۔ اس میں ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ بھارتی حکومت اکتوبر دو ہزار دو میں مقبوضہ کشمیر میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات کرا رہی تھی۔ اس سے پہلے کشمیر پر کوئی بھی بڑی پیش رفت اس کو سیاسی طور پر متاثر کر سکتی تھی۔ اسی طرح بھارت کی خواہش تھی کہ پاکستان کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی اخلاقی، سفارتی اور دیگر صورتوں میں حمایت مکمل طور پر ختم کرے۔ جو کہ کسی طور پر بھی کسی بھی پاکستانی حکومت کے لئے کسی بھی دور میں ممکن نہیں رہا۔ یہی وجہ تھی کہ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے کے مصداق، مشرف اپنی خاندانی نہر والی حویلی جانے کا تو خواب پورا کر سکے۔ مگر بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت دیگر معاملات پر کوئی معاہدہ نہیں ہوسکا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here