پیدل کرے تو کیا کرے

0
2464

     تحریر: محمد لقمان

 لاہور کے پوش علاقے گلبرگ میں اگر لبرٹی چوک کو کوئی شخص پیدل عبور کرنا چاہے تو تیز رفتار گاڑیوں کی وجہ سے اسے ایک طویل انتظار کرنا پڑے گا۔ سگنل فری مین بولیوارڈ سے آنے والی گاڑیوں کے ڈرائیور ایک پیدل کو دیکھ کر مزید رفتار بڑھا لیں گے جس کی وجہ سے معمر افراد رک جاتے ہیں جبکہ بچے اور نوجوان دوڑنے کی صورت میں گاڑیوں سے ٹکرا کر زخمی ہوجاتے ہیں۔  گویا کہ اربوں روپے کی لاگت سے سگنل فری روڈز تو تعمیر کردی گئی ہیں مگر پیدل افراد کے لئے انڈر پاس یا کوئی اور سہولت نہیں بنائی گئی۔سوا کروڑ آبادی کے شہر لاہور میں تقریبا ً 20 سال پہلے تقریباً 51 فی صد حصوں میں فٹ پاتھ ہوتے تھے۔ مگر اب یہ صرف 40 فی صد تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ ان فٹ پاتھوں پر بھی کہیں تو ٹھیلے لگے ہوئے ہیں تو کہیں ٹائر پنکچر لگانے والوں اور تاجروں نے اپنی دکانوں کے سامنے ان پر قبضہ کرلیا ہے۔ اسلام پورہ، مزنگ ، شاہ عالم مارکیٹ اور لبرٹی مارکیٹ سمیت متعدد علاقوں میں دکانداروں نے تھڑوں اور فٹ پاتھ پر ٹھیلوں سے ماہانہ وصولی کو اپنی آمدنی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔

 ایک اندازے کے مطابق ہر ٹھیلے یا ریہڑی والے کو ہر مہینے پینتیس ہزار روپے تک دکانداروں کواداکرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ دکانداروں نے اپنی کاریں اور موٹرسائکلیں پارکنگ میں کھڑا کرنے کی بجائے پورا دن اپنی دکانوں کے سامنے لگائی ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ سے جس کی سزا صرف پیدل کو ہی ملتی ہیں۔ جب یہی دکاندار ہر وقت ناجائز تجاوزات کی وجہ سے اپنا کاروبار متاثر ہونے کا رونا روتے رہتے ہیں۔ ساندہ روڈ اور میکلوڈ روڈ  سمیت کئی علاقوں میں تو اسٹیل فرنیچر بنانے والوں نے فٹ پاتھوں پر ویلڈنگ جیسا خطرناک کام بھی شروع کرلیا ہے۔ جس کی وجہ ہر روز متعدد افراد کے یا تو کپڑے جلتے ہیں یا وہ شرارے پڑنے سے زخمی ہوجاتے ہیں۔ یونیورسٹی آف انجینرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کی ایک رپورٹ کے مطابق لاہور شہر میں 65 فی صد کے قریب ایسے لوگ ہیں جن کے پاس اپنی کار نہیں۔ جن کو کسی نہ کسی طور پر سڑک پر پیدل چلنا پڑتا ہے۔ اور فٹ پاتھ نہ ہونے کی وجہ سے سڑک کنارے چلنے اور اسے عبور کرنے میں دشواری آتی ہے۔ حکومت نے اپنی تئیں بڑی سڑکوں کو عبور کرنے کے لئے شہر کے مختلف علاقوں میں سڑک عبور کرنے کے لئے تقریبا ً ایک ارب روپے کی لاگت سے چھتیس پیڈسٹرین برج تعمیر کیے ہیں۔ مگر ان پلوں کے اوپر نشیوں کے ٹھکانوں کی وجہ سے اکثر افراد اپنی جان خطرے میں ڈال کر تیز رفتار گاڑیوں کے آگے دوڑ کر سڑک پار کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک خطرناک عمل ہے اور جان لیوا حادثات بھی ہوتے ہیں۔

 اسی شہر لاہور میں تقریباً چالیس ارب روپے کی لاگت سے میٹرو بس کا نظام قائم کیا گیا ہے اور ایک سو پینسٹھ ارب روپے کی لاگت سے بجلی سے چلنے والے اورنج میٹرو لائن ٹرین بھی چلائی جارہی ہے۔  مگر نہ تو سڑک کنارے فٹ پاتھ تعمیر کیے گئے ہیں اور نہ ہی پہلے سے تعمیر فٹ پاتھوں کو تجاوزات سے فارغ کرایا گیا ہے۔ گویا کہ پیدل چڑی بچاری کیا کرے ، ٹھنڈا پانی پی مرے کے مصداق اپنی جان کو خطرے میں ڈالے ہوئے تیز رفتار ٹریفک میں سے راستہ بنانے پر مجبور نظر آتا ہے۔ تیز رفتاری کے علاوہ فٹ پاتھ نہ ہونے کی وجہ سے شہر میں ٹریفک حادثات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

  ٹریفک پولیس کے مطابق لاہور میں ٹریفک حادثات میں گذشتہ سال میں 7 فی صد تک اضافہ ہوا ہے۔ صرف 2017 میں 50 ہزار کے قریب ٹریفک حادثات ہوئے۔ جن میں درجنوں افراد کی جان گئی جبکہ سینکڑوں پوری زندگی کےلئے معذور ہوگئے ۔جہاں گاڑی ڈرائیورز کا قصور ہے تو فٹ پاتھ نہ ہونے کی وجہ سے کئی مرتبہ  پیدل افراد بھی وجہ بن جاتے ہیں۔ آدھے سے بھی کم پیدل افراد زیبرا کراسنگ کو استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ ایک تہائی کے قریب افراد موبائل فون کو استعمال کرتے ہوئے سڑک کراس کرتے ہیں۔

 فٹ پاتھوں پر عام آدمی  کیسے چل سکتا ہے جب  ان پر یا تو ہوٹل والوں نے کرسیاں رکھی ہوتی ہیں یا کھوکھے لگا دیے جاتے ہیں۔ شاہ عالم مارکیٹ کے تاجر تو فٹ پاتھ پر کام کرنے والے ٹھیلے مالکان سے 35 ہزار روپے ماہانہ تک وصول کرتے ہیں۔رہی سہی کسر سیکیورٹی کے نام پر سرکاری اداروں نے پوری کردی ہے۔ فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کردی  گئی ہینں۔وئی جگہ نہیں رہتی۔ غیر قانونی پارکنگ خصوصاً لوئر مال اور سیکرٹیریٹ کے ارد گرد کے علاقوں میں فٹ پاتھوں کے اوپر موٹر سائکلز اور کاریں گھنٹوں کھڑی رہتی ہیں۔  شہر میں سڑکوں کا جال بچھا کر حکومت بھلے سے ٹریفک کے نظام میں بہتری لائے ۔ مگر پیدل چلنے والے افراد کے لئے بھی کچھ نہ کچھ  کرے تاکہ ٹریفک حادثات کی شرح کم کی جاسکے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here