تحریر: محمد لقمان
1970 کی دہائی میں عالمی شہرت یافتہ ناول نگار ھیرالڈ روبنز نے ایک ناول پائریٹ یعنی بحری قزاق لکھا۔ جس کا مرکزی کردار ایک معمر عرب بدر الفے تھا۔ جس نے ایک امریکی حیسنہ جارڈانا سے شادی رچائی ہوئی تھی. اس نے اپنی زوجہ کو صرف ایک شرط کے ساتھ ہر طرح کی آزادی دے رکھی تھی ۔ کہ جارڈانا کسی بھی شخص سے ہر طرح کی دوستی کرسکتی تھی سوائے کسی یہودی یا اسرائیلی سے۔ اگر پاک۔ بھارت کرکٹ کا جائزہ لیں تو دونوں ممالک کے درمیان بھی ان کی عوام نے ایسی ہی شرط عائد کررکھی ہے۔ پاکستان کی عوام کو بنگلادیش اور سکاٹ لینٖڈ سمیت کسی بھی ملک کی ٹیم سے شکست قابل قبول ہے سوائے بھارت سے ۔ اسی طرح کی صورت حال بھارت میں بھی پورے شد ومد سے نظر آتی ہے۔ خصوصاً شمالی بھارت کی ہندی بیلٹ تو اسی جذبے کے ساتھ پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ دیکھتی ہے۔ ان دنوں بھارت میں انتخابات ہو رہے ہیں اور ورلڈ کپ بھی بہت قریب ہے۔ کرکٹ کے عالمی کپ کا برطانیہ میں آغاز 30 مئی کو ہوگا ۔ کل 48 میچز کھیلے جائیں گے۔ مگر برصغیر میں سے زیادہ نظر 16 جون کے میچ پر لگی ہوئی ہے۔ جب پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں مانچسٹر کے اولڈ ٹریفورڈ گراونڈ مد مقابل آئیں گی۔ پاکستانیوں کے شائد 14 جولائی کو کھیلے جانے والا ورلڈ کپ فائنل بھی اتنی اہم نہیں ہوگا جتنا کہ پاک۔بھارت ٹاکرا ہے۔ پاک۔بھارت میچز سے بہت پہلے ہی دونوں ممالک کے ٹی وی چینلز پر ایک جنگ جیسا ماحول شروع ہوجاتا ہے۔۔ہر نیوز روم ایک وار روم کا منظر پیش کرتا ہے۔ علم نجوم کے ماہرین کی چاندی ہو جاتی ہے۔ لیکن جب ٹیمیں میدان میں اترتی ہیں تو وہی ٹیم جیتتی ہے جس کی مہارت اور ٹیکنیک بہتر ہوتی ہے۔ تمام دعائیں اور بددعائیں رائگاں جاتی ہیں۔ یہ معاملہ صرف کرکٹ تک ہی محدود نہیں ، دونوں ممالک کے درمیان شریکے کا رشتہ سفارت کاری اور سیاست میں بھی نظر آتا ہے۔ فروری کے مہینے میں پاک۔بھارت جھڑپوں کے دوران تو عوام میں اتنا جوش و جذبہ پیدا کردیا گیا تھا کہ لگتا تھا کہ تاریخ عالم کی پہلی جوہری جنگ کسی بھی وقت شروع ہو جائے گی۔ مگر پاکستانی قیادت کی طرف سے زیادہ دانشمندی کے مظاہرے کی وجہ سے وہ جنگ نہ ہوسکی جوبھارت میں انتخابات کے دوران مودی سرکار کو فائدہ دے سکتی تھی۔ کاش سرحد کے دونوں طرف عوام سمجھ جائیں کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ میز پر بیٹھ کرہی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ کرکٹ کے مقابلوں کو صرف اوول اور لارڈز کے میدانوں میں ہی نمٹایا جائے تو بہتر ہے ۔ ٹی وی سکرینوں پر ھیجان سے جنوبی ایشیا میں امن کے امکانات مزید کم ہو جاتے ہیں