تحریر: محمد لقمان
پاکستان میں عموماً انسانوں کو ہی خوراک کی کمی کا شکار سمجھا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ہر روز نہ کسی ٹی وی چینل اور اخبار پر غربت کا رونا رویا جانا ایک معمول کی بات ہے۔ اکتوبر 2016 میں جاری ہونے والے فاقہ کشی کے بارے میں عالمی رپورٹ کے مطابق تقریباً 22 فی صد پاکستانی کم خوراکی کا شکار ہیں۔ وہ زندہ رہنے کے لئے صرف پیٹ ہی بھرتے ہیں۔ ان افراد میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کہ اچار اور روٹی کھا کر گذارا کرتے ہیں اور ان کی رسائی پھل اور گوشت تک نہیں۔ یوں وہ متوازن غذا سے محروم رہتے ہیں۔ لیکن ماہرین حیوانات کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے تین ددھیل یعنی دودھ دینے والے جانور بھوک کا شکار ہیں۔ ان کو صرف اتنا بھی چارہ نہیں ملتا جس سے ان کا پیٹ بھر سکے۔ کم خوراکی کی وجہ نہ صرف کمزور رہتے ہیں بلکہ ان کی دودھ کی پیداوار بھی بہت کم ہے۔ پاکستانی گائے دن میں 7 سے 10 لٹر دودھ دیتی ہے جبکہ امریکی گائے کا دن میں سو لٹر سے بھی زائد دودھ دینے کا ریکارڈ ہے۔ ڈیری ڈویلپمنٹ کے ماہر حافظ محمد وصی خان کے مطابق پاکستان میں بھی جدید فارمز پر پالی جانے والی بھینسیں اور گائے بھی اوسط سے بہت زیادہ دودھ دیتی ہیں۔ وزیر آباد کے قریب میں امریکی جانوروں کے فارم میں تو ایک گائے 47 لٹر تک دودھ دیتی ہے۔ مگر ایسی گائیں چند ہزار ہی ہیں۔ اگر ددھیل جانوروں کو متوازن غذا یعنی توانائی سے بھرپور خوراک دی جائے تو ان کی پیداواریت بھی بڑھ سکتی ہے۔ اگر جانور موٹا تازہ ہو تو ملک کی گوشت کی ضروریات بھی پوری کی جاسکتی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں بھینسوں کی کل آبادی 2 کروڑ 33 لاکھ 40 ہزار ، بھیڑوں کی 2 کروڑ 42 لاکھ 40 ہزار، 4 کروڑ 91 لاکھ 40 ہزار بکریاں ، 7 لاکھ 70 ہزار اونٹ موجود ہیں۔ جن میں چند لاکھ مویشی ہی ایسے ہیں جن کو پوری غذا ملتی ہے۔۔ جانوروں میں کم خوراکی اور بیماریوں کے اثرات انسان پر بھی پڑ رہے ہیں۔۔ رہی سہی کسر جانوروں کی غذا میں ایفلاٹاکسین اور پھپھوندی شامل ہونے کی وجہ سے انسانوں میں کینسر اور دیگر بیماریاں منتقل ہورہی ہیں۔ اگر جانوروں کو خوراک پوری ملے تو پاکستانیوں کی عمومی صحت بھی بہتر ہوسکتی ہے۔