وادی کشمیر۔۔۔۔سفرنامہ

0
996

ریلوے رے ریلوے تیری کون سی کل سیدھی
تحریر: محمد لقمان

دو ہزار سولہ میں واپڈا کی معاونت سے نیلم جہلم منصوبے کا دورہ کیا اور اس پر سما ٹی وی کے لئے ایک رپورٹ بنائی۔۔۔لیکن اس دوران آزاد کشمیر کے صدر مقام مظفر آباد شہر جانے کا موقع ہی نہ ملا۔ صرف پن بجلی کے منصوبے کے مقام کا دورہ کیا اور واپس اسلام آباد سے ہوتے ہوئے لاہور آ گئے۔ اس سے پہلے انیس سو اٹھانوے میں میں اپنی فیملی کے ساتھ آزاد کشمیر کے دارالحکومت جا چکا تھا۔ مگر اس سفر کو بھی اب تیئس سال ہو چکے تھے۔ خواہش تھی کہ دوبارہ نیلم اور جہلم کے سنگم پر آباد شہر کی سیر کی جائے۔ ستمبر دو ہزار اکیس میں زرعی صحافیوں کی تنظیم ایگریکلچر جرنلسٹس ایسوسی ایشن (آجا) کا صدر منتخب ہوا تو سالانہ ٹریننگ پروگرام کے لئے جگہ کے انتخاب کے لئے ایک اجلاس ہوا۔ میں نے مظفر آباد کو چننے کا مشورہ دیا تو سب نے اس کو پسند کیا۔ پچھلے کٗئی سال میں زیادہ تر پروگرام بھوربن کے پی سی ہوٹل یا مالم جبہ میں ہی ہوتے آ ئے تھے۔ ہر کوئی یکسانیت کا شکا ر ہو چکا تھا۔ سترہ نومبر دو ہزار اکیس کی رات بارہ بجے راول ایکسپریس کے ذریعے راولپنڈی جانے کا طے پایا۔ جہاں سے آگے بذریعہ سڑک آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد جانا تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو کمیٹی کے کن ممبران کی خواہش تھی کہ سڑک کی بجائے ریل کے ذریعے سفر کیا جائے۔ مگر کثرت رائے سے اس تجویز کو مان لیا گیا۔ کئی سال کے بعد ٹرین کے ذریعے سفر کرنے جا رہا تھا۔ خیال یہیں تھا کہ وفاقی وزرا شیخ رشید احمد اور اعظم سواتی کے ریلوے کے نظام میں بہتری کے دعووں میں کچھ نہ کچھ حقیقت ہوگی۔ رات پونے گیارہ کے قریب میں اور منور حسن اوبر کی کار پر ریلوے اسٹیشن پہنچ گئئے۔ لیکن وہاں ہمارے علاوہ ابھی کوئی نہیں پہنچا تھا۔ بہرحال بارہ بجے کے قریب ٹریننگ کے تمام سولہ شرکا لاہور ریلوے اسٹشین آ چکے تھے۔ ایک پنجابی کہاوت ہے کہ پانچ کلو مینڈکوں کو تکڑی میں تولنا آسان کام نہیں ہوتا۔ اتنا ہی مشکل کام صحافیوں کو ایک جگہ پر اکٹھا کرنا ہوتا ہے۔۔ دورے کے کوآرڈینیٹر وحید ظفر آئے تو سب لوگ راول ایکسپریس میں سوار ہوگئے۔ سوچ یہ تھی کہ بزنس کلاس میں صورت حال بہتر ہوگی۔ مگر ریلوے کے نظام میں استقامت کو سلام کہ سب کچھ وہی تھی جو کہ پچھلے دور حکومت میں تنقید کی وجہ رہا تھا۔ غیر آرام دہ سیٹیں اور گندہ ماحول۔ کمپارٹمنٹ کی کھڑکی پر لال بیگ رینگتا نظر آیا تو یقین آ گیا کہ پاکستان ریلوے کی ٹرین میں ہم سوار ہو چکے ہیں۔ جیسے تیسے رات کو سیٹوں پر آرام کے لٗے لیٹے تو بڑی دیر تک نیند نہیں آئی۔ کہتے ہیں کہ نیند تو سولی پر بھی آ جاتی ہے۔ دو گھنٹے ہی سوئے ہوں گے کہ صبح کے پانچ بج گئے اور راولپنڈی کا ریلوے اسٹیشن آگیا۔ صبح کی نماز کا وقت ہو چکا تھا۔ ریلوے اسٹیشن کے ویٹنگ روم کے واش روم استعمال کرنے کے لئے ایک گھنٹہ کے قریب قطار میں لگنا پڑا۔ ریلوے اسٹیشن کے باتھ رومز دیکھنے سے بھی پتہ چلتا ہے کہ پاکستان ریلوے دیگر ممالک کے ریلوے کے نظام سے کیوں اتنی پیچھے ہے۔ ریلوے اسٹیشن سے باہر آئے تو مظفر آباد لے جانے کے لٗے گاڑیاں موجود تھیں۔ ریلوے کے غیر آرام دہ سفر نے اتنا تھکا دیا تھا کہ سب نے فوری طور پر گاڑیوں میں فوری طور پر سوار ہو کر سستانے کی ٹھانی۔ ریلوے کا سفر جو کہ بچپن میں ہر ہر کسی کا خواب رہا تھا۔ اب یہ اس بار کسی ڈراونے تجربے سے کم نہیں تھا۔

جاری ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here