سچ یہ بھی ہے۔کرونا نے دنیا بند کردی

0
1744
Corona Virus pandemic leads to world lock down.

تحریر: محمد لقمان

جدید ترین کرائیو الیکٹران مائکروسکوپ کے ذریعے نظر آنے والے ایک سو پچیس نینو میٹر کے سائز کے مالک کرونا وائرس نے دنیا کی ساڑھے سات ارب سے زائد آبادی کو مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ دسمبر دو ہزار انیس میں چین کے شہر ووہان کی ایک مارکیٹ سے شروع ہونے والی وبا پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔چین میں تو اس بیماری پر قابو پایا جاچکا ہے۔ اب یہ وبا دو سو کے قریب ممالک میں لاکھوں افراد کو بیمار کرنے کے ساتھ ستر سے اسی ہزار جانیں لے چکی ہے۔ چین میں تین ہزار سے زائد اموات ہوئیں مگر اب امریکہ اور اٹلی میں مرنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ایران، اسپین اور جرمنی میں بھی انسان تیزی سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ اس مرض کی دہشت سانپ اور چور کی طرح ہی ہے کہ چاہے آپ کو نقصان ہو یا نہ ہو، ایک خوف دل میں بیٹھ جاتا ہے۔ اس کا اندازہ دنیا بھر میں فضائی سفر کی بندش اور اکثر ملکوں میں لاک ڈاون سے ہو رہا ہے۔ ایشیا، شمالی و جنوبی امریکہ، افریقہ، آسٹریلیا اور یورپ کے ممالک نے ایک دوسرے کے لئے سرحدیں بند کردی ہیں۔ اور یہاں تک کہ شہریوں کو اپنے گھروں تک ہی مقید کردیا گیا ہے۔ اس سے اس وقت تو شاید انسانی جانوں کی تلفی کا سلسلہ رک جائے مگر بعد میں کرونا کی جگہ غربت اور بھوک ننگ کا جو ناچ ہوگا اس کا اثر اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں بھی جاری رہے گا۔ وہ دنیا جس کو سرد جنگ کے بعد دیوار برلن توڑنے پر فخر تھا۔اب تمام ممالک کے درمیان کراسنگز بند ہونے سے دوبارہ بیسویں صدی کے وسط میں چلی گئی ہے۔ جب ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر بہت مشکل ہوتا تھا۔ اگر دنیا میں انٹرنیٹ ٹیکنالوجی اور سیٹلائٹ ٹی وی کا وجود نہ ہوتا تو شاید یہ تنہائی کہیں زیادہ ہوتی۔ ریاست کی سطح سے نیچے کی طرف آئیں تو ایک شہر دوسرے شہر کیلئے بند ہوچکا ہے۔ کئی شہروں میں گھرو ں سے نکلنے پر بھی پابندی ہے۔ گویا کہ انسان اپنے ہی بنائے ہوئے گھروں میں قید ہوچکا ہے۔ اس کی حالت بالکل ریشم کے کیڑے کی ہو چکی ہے جو ساری عمر قیمتی دھاگہ بنانے کے بعد اپنے کاکون میں بند ہو جاتا ہے۔ کرونا کا پھیلاو کا عمل ایسا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان سے ہاتھ ملانے کے بھی قابل نہیں رہا۔ ہینڈ شیک کی جگہ لیگ شیک اور آداب نے لے لی ہے۔ مساجد، گرجوں، مندروں، گوردواروں میں جانے پر بھی پابندی ہے۔ انسان ڈر رہا ہے کہ پتہ نہیں موت کا پروانہ کورونا کی شکل میں ادھر سے نہ آجائے یا ادھر سے نہ مل جائے۔کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی والی یہ پہلی بیماری نہیں۔ اس سے پہلے دو ہزار تین میں سارس اور دوہزار بارہ میں مرس دنیا میں سینکڑوں اموات کا باعث بن چکی ہیں۔ مگر اس بار یہ وائرس عالمی وبا کا باعث بنا ہے۔ جس کی شدت میں کمی یا خاتمے میں ابھی کتنا وقت لگے گا۔ اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here