تحرير: محمد لقمان
صدر ممنون حسين سے ان کے اہل خانہ نے ٹرين کے ذريعے لاہور سے راولپنڈي جانے کي فرمائش کي ۔۔تو پاکستان ريلوے نے شاہ سے وفاداري کي نئي تاريخ رقم کردي۔ شام کو راولپنڈي جانے والي ريل کار کو صدر اور ان کے اہل خانہ کے لئے مخصوص کرديا۔ نو کي بجائے چار بوگياں لگائي گئيں۔ اور بالکل دو نئے انجن بھي ٹرین کے ساتھ بھیجے گئے تاکہ مملکت خداداد کے صدر محترم کو کسي قسم کي تکليف نہ ہو۔ جن مسافروں نے آج کے دن کي بکنگ کروا رکھي تھي ۔ ان کو گاڑي ميں سفر کرنے نہيں ديا گيا۔ کچھ لوگوں کو ٹکٹ کي رقم واپس کردي گئي اور کچھ کو بعد میں آنے والی تيز گام ایکسپریس ميں سوار کروا ديا گيا ۔ يوں ٹرين کو ايک شاہي بگھي ميں بدل ديا گيا۔ گوجرانوالہ اور ديگر اسٹيشنز پر بھي ريل کار ميں سفر کرنے کي کوشش کرنے والي عوام کو منہ کي کھاني پڑي۔ يوں صدر مملکت کو ٹرين پر سفر کرواکے قومي خزانے کو کئي لاکھ روپے کا ٹيکہ لگايا گيا۔ پاکستان کي تاريخ ميں حکمرانوں کي سادگي کي يہ پہلي مثال نہيں۔ انيس سو اسي کي دہائي ميں فوجي حکمران جنرل ضيا الحق کا راولپنڈي ميں بائسکل کا سفر بھي قوم کو لاکھوں روپے کا پڑا تھا۔ پروٹوکول اور حفاظتي انتظامات عام عوام کے لئے وبال جان بن جاتا ہے۔ ہاں جب يہي سياستدان اقتدار ميں نہيں ہوتے تو وہ عام عوام سے گھل مل جاتے ہيں۔ اس سلسلے ميں 1993 ميں مرحومہ وزير اعظم بے نظير بھٹو کا لاہور سے لالہ موسي تک کا ٹرين مارچ ايک عوامي سفر تھا۔ راقم الحروف کے علاوہ مشہور اينکر حامد مير نے بھي بے نظير بھٹو کے ساتھ سفر کيا تھا۔ مگر وہي بے نظير بھٹو جب وزير اعظم بنيں تو کبھي بھي ٹرين ميں سفر نہيں کيا۔ آج کل جب پنجاب کے وزير اعلي شہباز شريف کسي ميٹرو بس ميں سفر کرتے ہيں تو پروٹوکول کي وجہ سے ايک عام مسافر بري طرح متاثر ہوتا ہے۔ کاش يہ حکمران يورپ اور ترقي يافتہ ممالک کے حکمرانوں کي صرف نقل ہي نہ کريں ۔ ان کي طرح زندگي بھي گذاريں۔ جب بھي يہ حکمران اپنے اقتدار کے دور ميں ايک عام آدمي کے قريب رہيں گے ۔ مشکل کے دنوں ميں وہي عام آدمي ان کي طاقت بنے گا۔ آزمائش شرط ہے۔