پنجاب۔۔۔۔سیاسی جنگ کا آخری میدان
تحریر: محمد لقمان
اٹھارہ اپریل 1993 کو صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی پہلی حکومت کو برطرف اور قومی اسمبلی کو تحلیل کردیا تھا۔مگر جب نواز شریف نے رد عمل دیا تو اسے پنجاب میں سبق سکھانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ اس کے لئے صوبائِی اسمبلی کے ارکان کو لالچ دیا گیا کہ اگروہ مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے غلام حیدر وائیں کی حکومت کو ختم کردیں تو صوبائی اسمبلی کو تحلیل نہیں کیا جائے گا۔ قصہ مختصر کہ سپیکر میاں منظور وٹو بھی صدارتی کیمپ میں چلے گئے۔ اس سلسلے کو ان کو پنجاب میں میاں اظہر کی جگہ مقرر ہونے والے نئے گورنر چوہدری الطاف حسین کا بھرپور تعاون حاصل تھا۔ 25 اپریل کو جب عدم اعتماد کی قرارداد پیش کی گئی تو 165 ارکان نے قرارداد کے حق میں فیصلہ دیا. ۔ اس روز پریس گیلری میں بیٹھ کر پاکستان کی جمہوری تاریخ کے بڑے عجیب و غریب واقعات دیکھنے کو ملے۔تحریک عدم اعتماد کے موقع پر پنجاب اسمبلی میں شدید ہنگامہ دیکھنے میں آیا۔ ایک دوسرے پر مائک اور کرسیاں پھینکی گئیں۔ سب سے زیادہ جس شخص نے ہنگامہ کیا وہ گجرات کے علاقے پھالیہ سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی رکن پیر بنیامین رضوی تھے۔ مرحوم نے نا صرف سپیکر کا گھیراو کیا بلکہ اسمبلی کے سیکرٹری پر بھی حملہ کیا۔ بہر حال نواز شریف کے قریبی ساتھی غلام حیدر وائیں کی حکومت ختم ہوگئی اور اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے سپیکر پنجاب اسمبلی منظور وٹو وزیر اعلی بن گئے۔سعید منہیس نے سپیکر پنجاب اسمبلی کا عہدہ سنبھال لیا۔ جب 26 مئی کو سپریم کورٹ نے نواز شریف کی حکومت کو بحال کیا تو بحال ہونے پر انہوں نے پنجاب میں نئی حکومت کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ مگر منظور احمد وٹو کو نواز شریف کے مخالف گورنر پنجاب چوہدری الطاف حسین کی بھرپور حمایت حاصل رہی۔ دو مواقع پر مسلم لیگ ن نے منظور وٹو کے خلاف تحریک اعتماد لانے کی کوشش کی ۔ دونوں مرتبہ گورنر نے اسمبلی تحلیل کردی۔ اور دونوں مرتبہ ہی لاہور ہائی کورٹ نے اسے بحال کیا۔ شاید اب کسی کو اس بات پر یقین نہ آئے کہ اس موقع پر شریف برادران کے ساتھ جو گروپ سب سے زیادہ وفادار رہا وہ گجرات کے چوہدری تھے۔ خصوصاً وٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی کوششوں میں ان کا کردار بہت زیادہ تھا۔ ہر ہر روز گلبرگ میں ایف سی سی روڈ (چوہدری ظہور الہی روڈ) پر ارکان اسمبلی کو اکٹھا کرتے اور ان کے لئے ظہرانے یا عشائیہ کا انتظام کرتے۔ چوہدری برادران نے اس دوران کروڑوں روپے خرچ کیے ہوں گے۔ مگر تمام تر ترغیبات کے باوجود اپنی وفاداریاں نہ بدلیں۔ منظور وٹو کو ہٹانے کی کوششیں جولائی تک جاری رہیں۔ حتی کہ فوج کے سربراہ جنرل عبدالوحید کاکڑ کی مداخلت پر صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے اپنے عہدوں سے استعفی دے دیا۔