تحریر: محمد لقمان
دوپہر بارہ بجے کے قریب دبئی ایرپورٹ پر جہاز نے لینڈ کیا۔ ابھی میرے پاس ایران کے شہر شیراز روانگی کے لئے دو گھنٹے کا وقت تھا۔ دبئی ایرپورٹ پر ہر نسل کا شخص دیکھنے کو ملا۔ ایرپورٹ کے اکثر ملازموں کا تعلق متحدہ عرب امارات کی بجائے دیگر ممالک سے تھا جن میں زیادہ تر فلپائن اور بھارتی ریاست کیرالا سے تھے۔جنوبی ایشیا کے مسافروں کے لئے الگ امگریشن کاونٹر تھے۔ جہاں باکستان، بنجلادیش اور ہند بڑے واضح انداز میں لکھا ہوا تھا۔ اور کراچی ، دہلی اور ڈھاکہ سے آنے والے مسافر لمبی قطاریں بنا کر وہاں کھڑے تھے۔ چونکہ میرا ایرپورٹ پر قیام انٹر لائن سفر کے لئے تھا۔ اس لیے میرا ان کاونٹرز سے کوئی واسطہ نہیں پڑا۔ دور سے ڈیوٹی فری شاپ کا نظارہ کیا۔ دبنی ایرپورٹ پر آنے والے ہر پاکستانی کی منزل ان دنوں زیورات اور الیکٹرونکس کی خریداری کے جگ مگ کرتا ٹیکسوں سے پاک یہ علاقہ ہی ہوتا تھا۔ اسی دوران شیراز جانے والے مسافروں کے لئے بورڈنگ کے لئے اعلان ہوا۔ ایران ایر کے کاونٹر سے ٹکٹ یعنی بلیط ملا تو اس پر راہگذر اور پنجرہ جیسے الفاظ لکھے تھے۔ مجھے جہاز پر جو سیٹ ملی اس پر پنجرہ لکھا ہوا تھا۔ میں نے کسی سے اس کا معنی پوچھا تو پتہ چلا کہ فارسی میں کھڑکی یا ونڈو پنچرہ ( بولنے میں پنجرے) کہا جاتا ہے۔ ایران ایر کے کاونٹر کے باہر ہی تہران میں ہونے والی ٹریننگ ورکشاپ میں شریک ایک اور صحافی سے ملاقات ہوگئی۔ وہ بنگلادیش کی سرکاری خبر رساں ایجنسی بی ایس ایس کے سینیر رپورٹر غازی الرحمان تھے۔ جنہوں نے اپنا تعارف گجی الرحمان کے طور پر کروایا۔ وہ اس وقت بھی پچاس سال کے پیٹے میں تھے۔ بنگلادیش کے قیام سے پہلے وہ ڈھاکہ میں اے پی پی کے بیورو میں جونیر رپورٹر تھے۔ یوں ہمارے درمیان ایک اور تعلق بن گیا۔ پریشان حال غازی الرحمان اس وقت ایک بڑی پریشانی کا شکار تھا۔ ان کے پاس صرف ایک پتلون شرٹ ہی تھی۔ کیونکہ بنگلادیش کی ایرلائن بیمان کا جہاز تو دبئی لے آیا تھا مگر سوٹ کیس ڈھاکہ ہی چھوڑ آیا تھا۔ شرٹ خریدنے کے لئے انہوں نے مجھ سے دس ڈالرز ادھار لیے۔ اس زمانے میں شاید ایک شرٹ دس ڈالر میں مل جاتی تھی۔ کچھ دیر بعد ایران ایر کے جہاز میں بیٹھے تو ایسے لگا جیسے کوئی ڈائیوو بس سے اتر کر کسی ویگن میں میں بیٹھ جائے۔ ایرانی صوبے فارس کے دارالحکومت شیراز اور دبئی کے درمیان فاصلہ صرف 560 کلومیٹر تھا۔ مگر سوا سے ڈیڑھ گھنٹے کا سفر کچھ زیادہ آرام دہ نہیں ثابت نہیں ہوا۔۔ شیراز کے ایرپورٹ پر جہاز نے لینڈ کیا تو موسم کافی گرم تھا۔ ایرپورٹ کی بلڈنگ بھی ملتان ایرپورٹ کی طرح کی ہی تھی۔ امیگریشن سے فارغ ہوئے تو غازی الرحمان نے مشورہ دیا کہ کچھ کھا پی لیا جائے۔ کھانے سے فارغ ہوئے تو اندازہ ہوا ابھی تو ابھی تو تین چار گھنٹہ کا مزید قیام شیراز میں ہے۔ کیوں نہ حافظ اور سعدی کے اس شہر کی سیر کرلی جائے۔
(جاری ہے(