بلدیہ لاہور
تحریر: محمد لقمان
آج کل سٹی کی بیٹ بڑی اہم سمجھی جاتی ہے۔کئی بار تو بڑے سینئر رپورٹر بھی لاہور شہر کے معاملات کور کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مگر آج سے اٹھائیس سال پہلے ایسا نہیں تھا۔ یہ عموماً جنرل رپورٹنگ کا ہی ایک حصہ ہوتی تھی۔ بہت کم رپورٹر ہی اسے کل وقتی کام کے طور پر لیتے تھے۔ میونسپل کارپوریشن لاہور میری بیٹ بنی تو شہر لاہور کے ترقیاتی کاموں اور مسائل کے بارے میں جاننے کی ضرورت پیش ہوئی۔ دریائے راوی کے کنارے آباد لاہور کے مالی وسائل اور مسائل کے بارے میں سوچ بچار مال روڈ اور لوئر مال کے سنگم پر تعمیر برطانوی دور کی عمارت ٹاون ہال میں ہوتی تھی۔ ایک صبح بلدیہ لاہور کے ٹاون ہال میں واقع دفتر پہنچا تو سب سے پہلے چیف پبلک ریلیشنز آفیسر خوشنود قریشی سے ملاقات کی۔ اس وقت بھی وہ پچاس سال سے زائد عمر کے تھے۔ بڑے درویش صفت انسان تھے۔ جب ان کے پاس پہنچا تو ان کے دفتر میں ایک میلہ سا لگا ہوا تھا۔ صحافی بھی موجود تھے اور عام عوام بھی۔ ہر کوئی اپنی اپنی ضرورت کے لئے آیا ہوا تھا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں اے پی پی سے آیا ہوں اور اب میں بلدیہ لاہور کو ایک مکمل بیٹ کے طور پر کور کروں گا۔ قریشی صاحب بہت خوش ہوئے۔ ایک مخصوص قہقہہ لگایا اور مجھ سے بیورو چیف سلیم بیگ ، کورٹ رپورٹر فیض الرحمان اور سب ایڈیٹر ظہورالدین بٹ کا حال پوچھا۔ چائے اور بسکٹ منگوائے اور تاکید کی کہ اگر ہر روز آنا ممکن نہ ہو تو کم ازکم ہفتے میں دو روز ضرور آوں۔ ان سے رخصت ہونے لگا تو انہوں نے مجھے لاہور میں شروع ہونے والے کچھ ترقیاتی کاموں کے بارے میں اعداد و شمار فراہم کردیے۔ جن کو میں نے دفتر میں آکر خبر کے قالب میں ڈالا ۔ یوں لاہور میں آنے کے بعد میری پہلی خبر جو شائع ہوئی وہ لاہور شہر کے بارے میں ہی تھی۔ یوں میرا خبر کا پہلا ذریعہ بن چکا تھا۔ دو چار روز کے بعد دوبارہ ان کے پاس گیا تو انہوں نے مختلف افسروں سے ملوایا۔ اس وقت میاں اظہر لارڈ مئیر کی چار سالہ مدت کے بعد عہدہ چھوڑ چکے تھے اور پنجاب کے گورنر مقرر کر دیے گئے تھے۔ لاہور شہر جس کا رقبہ اس وقت تقریباً چار سو مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ دنیا کے کئی ممالک سے زائد آبادی کا مالک ہے۔ اس کے شمال اور مغرب میں ضلع شیخوپورہ ہیں تو مشرق میں بھارتی پنجاب کا ضلع امرتسر ہے۔ جنوب میں ضلع قصور واقع ہے۔ لاہور کو پھیلنے کو اگر کوئی چیز ماضی اور آج روکتی رہی ہے تو دریائے راوی ا ور بین الاقوامی بارڈر ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید لاہور مزید کئی سو کلومیٹر پر آباد ہوجاتا۔ لاہور شہر کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو چارلس ڈکنز کے ناول ٹیلز آف ٹو سٹیز کی طرح دو مختلف شہر آباد نظر آتے ہیں۔ ایک وہ شہر جس کو اندورن شہر اور اس کے مضافات پر گھنے آباد محلے اور آبادیاں ہیں۔ یہ تمام علاقے مال روڈ، جیل روڈ، فیروز پور روڈ اور ملتان روڈ کے دائیں بائیں کچھ علاقے پر کئی دہائیوں سے آباد ہیں۔ دوسرے وہ علاقے جن کو بعد میں آباد کیا گیا۔ اول قسم کے لاہور کے معاملات اگر میٹروپولیٹن کارپوریشن دیکھتی ہے تو دوسری قسم کا لاہور لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی یعنی ایل ڈی اے کے زیر نگرانی ہے۔ چھاونی کے علاقوں کے اندر آباد لاہور کو اس زمانے میں کینٹونمنٹ بورڈ کنٹرول کرتا تھا۔ کچھ دن کے بعد میں ایل ڈی اے کے ایجرٹن روڈ پر موجود نو منزلہ دفتر میں گیا۔ اس وقت یہ عمارت لاہور کی چند بلند ترین عمارتوں میں شمار ہوتی تھی۔ نویں منزل پر ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے اور انتظامی افسران کے دفاتر تھے۔ اس زمانے میں ایل ڈی اے کے ڈائریکٹر تعلقات عامہ رانا خورشید احمد خان تھے۔ کارپوریشن کے خوشنود قریشی جتنے سادہ تھے ۔ رانا صاحب اتنے ہی تیز طرار تھے۔ مگر فیصل آباد سے تعلق بہت کام آیا۔ پس جب تک وہ ایل ڈی اے میں رہے میرے ساتھ ان کا بہت اچھا تعلق رہا۔