شیراز۔ سعدی اور حافظ کی سرزمین
تحریر: محمد لقمان
شیراز ایرپورٹ سے باہر نکلے تو شہر میں گھومنے کے لئے ٹیکسی کرائے پر لینے کا سوچا۔ مگر قدرت نے ہمارے لئے مفت کے ٹورسٹ گائڈز کا انتظام کردیا۔ ہوا کچھ یوں کہ دو ایرانی نوجوانوں نے ہمارے پاس کار روکی اور شکستہ انگریزی میں پوچھا کہ آپ کہآاں جانا چاہتے ہیں۔ میں نے انہیں سعدی شیرازی کے مزار پر جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے مجھے اور میرے نئے نئے بنگلادیشی دوست غازی الرحمان کو گاڑی میں بٹھایا اور کہا کہ پہلے ہمیں شیراز کی مشہور سویٹ ڈش کھلانا چاہتے ہیں۔ ایک دوکان کے سامنے گاڑی روک کر انہوں نے چار پیک لیے جن میں فیرنی نما میٹھی ڈش تھی۔ بڑی مزیدار چیز تھی۔ 26 سال گذرنے کے بعد مجھے شیراز کے ان باسیوں کے نام یاد نہیں رہے۔ دوران گفتگوپتہ چلا کہ انہیں انگلش سیکھنے کا بہت شوق تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ غیر ملکی سیاحوں سے بات چیت کرنا چاہتے تھے۔ وہ اس زمانے کی ایرانی حکومت سے بھی بہت شاکی تھے کہ نوجوانوں کو آدھے بازو والی شرٹ پہننے کی اجازت نہیں۔ خلیج فارس سے کچھ فاصلے پر واقع شیراز شہر میں ستمبر کا درجہ حرارت تہران اور دیگر شہروں سے کافی زیادہ تھا۔ اس لیے پوری آستین والی شرٹ پہننا ان کے لئے پریشانی کا باعث تھا۔ خورونوش کی قیمتوں میں بار بار اضافہ بھی ان کی تشویش کی وجہ تھا۔
بہر حال وہ شیراز کے مضافاتی علاقے میں لے گئے جہاں گلستان اور بوستان جیسی کتابوں کے مصنف اور ازمنہ وسطی کے عظیم ایرانی حکایت نگار شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی اور مشہور فارسی شاعر شمس الدین محمد حافظ شیرازی دفن ہیں۔ ان کے مزاروں پر بہت سارے لوگ آئے ہوئے تھے جن کا تعلق ایران کے مختلف علاقوں سے تھا۔ اس دن شاید شیراز کے ان عظیم سپوتوں کی قبر پر آنے والے غیر ملکی یا بزبان فارسی خارجی صرف ہم دو افراد ہی تھے۔ بہر حال ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے ایرانی ہمیں فارسی زبان میں ہمیں خوش آمدید کہتے رہے۔
جس کا جواب ہمیں بھی مسکرا کر دینا پڑا کیونکہ ہماری فارسی کی صحت بھی بہت کمزور تھی۔ سعدی اور حافظ کے مزاروں پر حاضری کے بعد ایرانی نوجوان ہمیں شیراز کے ایک اور کونے میں لے گئے جہاں تاریخی عمارت باب قرآن تھی۔ یہ محراب نما دروازہ پہلے باب طوس کہلاتا تھا مگر 1979کے انقلاب کے بعد اسے باب قرآن کا نام دے دیا گیا۔ جوں ہی ہم باب قرآن سے فارغ ہوئے توشام ہوچکی تھی اور ایران کے دارالحکومت تہران جانے کے لئے ایران ایر کی فلائٹ ہمارے لیے ایرپورٹ پر منتظر تھی۔ بورڈنگ کارڈ لیا اور ایک مرتبہ پھر ایران کی قومی ایرلائن میں سوار ہوئے۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی فلائٹ کے بعد ہم ایران کے جنوب سے شمال تک 600 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرچکے تھے۔ تہران کا جدید مہرآباد ایرپورٹ ہمارا منتظر تھا۔