خار زار صحافت۔۔۔قسط تراسی

0
949

پاکستان اسٹیل مل: فولاد کو پانی بنتے دیکھا
تحریر: محمد لقمان
اٹھارہ نومبر انیس سو ستانوے اکونا ورکشاپ کے تحت ہونے والی بریفنگز کا آخری دن ثابت ہوا۔ صبح سویرے کراچی کے وسط میں واقع ہالیڈے ان سے شہر کے دوسرے کونے میں واقع اسٹیل مل جانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ فاصلہ تو تھا پچاس کلومیٹر جو عام طور پر دو سوا دو گھنٹے میں طے ہو جانا تھا۔ مگر وہ کراچی ہی کیا جہاں ٹریفک کی روانی آسان ہو۔ اس صبح بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ شاہراہ فیصل پر ہی اتنا وقت لگ گیا کہ پپری پہنچتے پہنچے دوپہر کے بارہ بجے سے زیادہ وقت ہو چکا تھا۔ اب تو اسٹیل مل عملی طور پر بند ہی ہو چکی ہے۔ مگر اس وقت سچ مچ کام ہوتا تھا۔ مل پہنچنے پر کانفرنس روم لے جایا گیا۔ جہاں پاکستان اسٹیل مل کے چیرمین میجر جنرل سکندر حیات نے پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی یونٹ کی ورکنگ پر بریفنگ دی۔ سکریپ کیا ہوتا ہے۔ پگ آئرن کو پگ آئرن کیوں کہا جاتا ہے۔ ری رولنگ کیا ہوتی ہے۔ بلٹ کیا ہوتا ہے۔ فولاد کی صنعت کی کوئی ایسی اصطلاح نہیں تھی جس کے بارے میں بتایا نہ گیا ہو۔ مل کے مارکیٹنگ شعبے کی کارکردگی کا بتایا گیا۔ آج سے چوبیس سال پہلے بھی یہی نوید دی گئی کہ روس اور دیگر ممالک کی مدد سے مل کی پیداواری صلاحیت بڑھائی جارہی ہے۔ بعد میں مل کے مختلف حصوں میں لے جایا گیا۔ میں نے پہلی مرتبہ اپنی آنکھوں سے لوہے کو پگھل کر مائع کی حالت میں آتے دیکھا۔ اس سے پہلے میں ایران میں اصفہان کے قریب اسٹیل مل جا چکا تھا۔ مگر پاکستان اسٹیل مل اس سے کہیں زیادہ وسیع و عریض ہے۔ اس ادارے کی وسیع و عریض زمین اور اہمیت کی وجہ سے اکثر و بیشتر کراچی سے تعلق رکھنے والے سیاستدان وزارت صنعت و پیداوار کے امیدوار رہے ہیں۔ اور ان کی وجہ سے غیر ضروری بھرتیاں بھی ہوتی رہی ہیں۔ انیس سو ستر کی دہائی میں مرحوم وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سابق سوویت یونین کی مدد سے یہ مل قائم ہوئی تھی۔ اس کی اسٹیل تیار کرنے کی پیداواری صلاحیت گیارہ لاکھ ٹن ہے جبکہ اس کے علاوہ پچپن لاکھ ٹن دیگر مصنوعات تیار کرنے کی اہلیت بھی رکھتی ہے۔ لیکن جب کسی ادارے میں سیاسی اثر و رسوخ بڑھ جائے تو اس کی تباہی لازمی ہو جاتی ہے۔ بہرحال لنچ کے بعد ایک ا ور اہم ادارے کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینرنگ لمیٹڈ کے لئے روانہ ہوئے۔ پپری سے واپس ساحل سمندر تک فاصلہ چالیس پینتالیس کلومیٹر سے کم نہیں تھا۔ اس لیے تقریباً دو گھنٹوں میں شپ یارڈ پہنچے۔ کمپنی کے مارکیٹنگ مینجر سراج الدین نے بریفنگ دی۔ بتایا گیا کہ انیس سو ستاون میں قائم ہونے والے ادارے نے چالیس سال کے دوران ملک میں بحری جہاز سازی اور جہازوں ا ور کشتیوں کی مرمت میں کیا کردار ادا کیا تھا۔ یہاں آکر پتا چلا کہ میدانی علاقوں میں رہنے والوں کو سمندر سے متعلق امور کا بھی علم ہونا ضروری ہے۔ شام کے قریب شپ یارڈ سے نکلے تو بتایا گیا کہ چونکہ کل تمام پاکستانی اور غیر ملکی صحافیوں نے کراچی سے اپنے گھروں کو روانہ ہونا ہے تو ہوٹل کی بجائے کراچی پریس کلب میں ڈنر کیا جائے۔ اس لیے سیدھے پریس کلب پہنچے جہاں اس وقت کے عہدیداروں نے بڑے تپاک سے استقبال کیا۔ پر تکلف عشائیے کے گروپ فوٹو ہوا۔ پریس کلب سے نکلے تو قریبی تاریخی عمارت فریر ھال جانے کا بھی موقع مل گیا۔ برطانوی دور میں تعمیر ہونے والی عمارت آج بھی بڑی منفرد نظر آتی ہے۔ رات گئے ہوٹل پہنچے تو اگلی صبح کے لئے تیاری شروع ہوگئی۔ یہ ہماری کراچی میں آخری رات تھی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here