ماں جی
تحریر: محمد لقمان
امی جی کا جنازہ جب زرعی یونیوسٹی سے متصل قبرستان کے لئے روانہ ہوا۔ تو میں اپنے ہوش و حواس میں ہی نہیں تھا۔ پتہ نہیں کون گلے سے ملا۔ کس نے تعزیت کی۔ جنازے کے بعد دفنانے کی باری آئی تو مجھے میت کو قبر میں اتارنے کو کہا گیا۔ میں نے یہ ذمہ داری نبا تو دی لیکن ایسے لگا کہ اب میں زندہ نہیں رہ سکوں گا۔ اسلام آباد اور لاہور سے میرے کئی دوست اور اے پی پی کے کولیگز آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے بہت حوصلہ دیا۔ لیکن میری آنکھوں میں تو جیسے آنسو ختم ہو گئے تھے۔ پتھرائی آنکھوں کے ساتھ ان کو دیکھتا رہا۔ جس پر وہ مزید اداس ہو جاتے۔ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے میں ماں کا لاڈلا تھا۔ جب میں نے فیصل آباد اور لاہور کی بجائے اسلام آباد میں تعلیم کے لئے قائد اعظم یونیورسٹی جانے کی ضد کی تو والد کی تمام تر مخالفت کے باوجود ماں کی حمایت سے اجازت مل گئی۔ بہت سادہ طبیعت کی خاتون تھیں۔ سکول یا کالج سے رسمی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ صرف قرآن پاک ہی پڑھا تھا۔ میں نے انہیں اپنے لیے الگ سے ناشتہ تیار کرتے نہیں دیکھا۔ ہم بہن بھائی جب کھا لیتے تو اس کے بعد بچنے والی چیزیں وہ بھی کھا لیتیں۔ کئی دفعہ کہتے کہ امی آپ ہمارے سے پہلے ناشتہ کرلیں۔ تو وہ کہتیں جب میرے بچوں کا پیٹ بھرے گا تو میرا بھی بھر جائے گا۔ ان کی صبح کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے ہوتا۔ خوجہ شیخ فیملی سے تعلق ہونے کے باوجود روپے پیسے کا کوئی لالچ نہیں تھا۔ میں اے پی پی کی ملازمت ملنے کے بعد ہر مہینے دو ہزار روپے ان کو دینے لگا تو چار مہینے کے بعد انہوں نے مجھے کہا کہ میرے پاس تیری امانت پڑی ہے۔ میں نے حیرانگی سے ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے الماری سے آٹھ ہزار روپے نکال کر میرے حوالے کردیے۔ کہنے لگیں تو پردیس میں رہتا ہے۔ تیرے کام آئیں گے۔ کئی دفعہ جب میں اپنی زندگی کو دیکھتا ہوں تو لگتا ہے روپے پیسے اور دوسروں کی ترقی سے بے نیازی شاید مجھے ماں کی طرف سے ورثے میں آئی ہے۔ ماں کی وفات سے تین دن بعد ہی میں لاہور میں اپنے دفتر پہنچ گیا۔ مجھے فیصل آباد کا گھر کاٹنے کو دوڑتا تھا۔ والد صاحب مجھے دلاسا دیتے تو میں اور اداس ہوجاتا۔ یوں دفتر میں آکر اپنے کام میں دل لگا کر ہی صدمے سے نکلنے کی کوشش کی۔ ملتان سے واپسی کے بعد اب مجھے لاہور میں رہنے کے لئے نئے ٹھکانے کی ضرورت تھی۔ اے پی پی میں ٹیلی پرنٹر آپریٹر غلام مصطفی نے مجھے پرانی انارکلی میں بورڈ آف ریونیو کے ساتھ والی گلی میں ایک مکان کے نچلے پورشن میں ایک کمرہ لے دیا۔ ستر سالہ اقبال حسین اور ان کی اہلیہ بڑے مزے کا جوڑا تھے۔ ہر روز صبح سویرے مجھے بیڈ ٹی لینے کی عادت مجھے وہیں سے ملی۔ چائے کے بدلے میں وہ مجھے اپنی زندگی نشیب و فراز کے بارے میں بتاتے۔ ہر صبح میں نو بجے دفتر کے لئے نکلتا تو شام کو واپسی ہوتی۔ وہ دونوں میاں بیوی میرا انتظار کر رہے ہوتے۔ اللہ تعالی کی مہربانی سے ماں کی وفات کے بعد دلاسہ دینے والے لوگ مل گئے تھے۔