بینظیر حکومت برطرف، اے پی پی کے نئے ملازم فارغ
تحریر: محمد لقمان
بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں حزب اختلاف کے احتجاج اور وزیر اعظم اور صدر کے درمیان بڑھتے اختلافات کا نتیجہ اسمبلیاں تحلیل ہونے اور حکومت کی برطرفی کی صورت میں ہوا۔ پانچ نومبر انیس سو چھیانوے کو صدر فاروق احمد خان لغاری نے اپنی ہی جماعت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو پر کرپشن کا الزام لگا کر فارغ کردیا۔ بے نظیر بھٹو پر آئین کے آارٹیکل اٹھاون ٹو بی کی تلوار دوسری مرتبہ چلی تھی۔ انیس سو نوے میں صدر اسحاق خان نے ان کی حکومت کو چلتا کیا تھا۔ میں اس وقت فیصل آباد سے لاہور بذریعہ ٹرین جارہا تھا جب مجھے بینظیر حکومت کی برطرفی کا پتہ چلا۔ نگران وزیر اعظم ملک معراج خالد کی سربراہی میں بننے والی عبوری حکومت نے سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کی مینجمنٹ میں بھی تبدیلیاں کردی تھیں۔ سات نومبر کو اظہر سہیل کو ڈی جی کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا جبکہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر چوہدری رشید احمد کو گیارہ نومبر کو واپس وزارت اطلاعات میں جانا پڑا۔۔ ایم آفتا ب دوبارہ ڈائریکٹر جنرل بنا دیے گئے تھے۔ جن کے لئے سب سے بڑا مسئلہ غیر قانونی بھرتیوں سے نمٹنا تھا۔ ادارے کے وسائل بہت کم تھے جبکہ اخراجات میں بے انتہا اضافہ ہو چکا تھا۔ اس کا حل اظہر سہیل اور چوہدری رشید کے دور میں بھرتی کیے گئے افراد کو نوکری سے فارغ کرکے نکالا گیا۔ فیصل آباد سمیت کئی اسٹیشن بند کر دیے گئے۔ فیصل آباد میں بے نظیر بھٹو کے دور میں بھرتی ہونے والے بیس افراد کے ٹرمینشن لیٹرز میرے پاس ڈاک کے ذریعے آئے ۔ ان میں سے بہت سارے ایسے لوگ تھے جن کو گھر بیٹھے تنخواہ مل رہی تھی اور وہ کبھی بھی دفتر نہیں آئے تھے۔ مجھے اور ساجد علیم کو ریزیڈینٹ کارسپانڈینس کے طور پر فیصل آباد میں رکھ لیا گیا تھا۔ ہمارا کام اپنے گھروں سے ہی خبریں بھیجنا تھا۔ بٹالہ کالونی والا دفتر بھی ختم کردیا گیا۔ اور حکم تھا کہ اس کو راتوں رات خالی کردیا جائے۔ مالک مکان چوہدری اقبال سے بات کی تو اس نے کہا کہ اے پی پی کے ذمے بقایا جات تو نہیں ہیں۔ مگر معاہدے کے مطابق مکان ایک سال کے لئے کرایے پر چڑھایا گیا ہے۔ اس لیے وہ گھر سے سامان نہیں اٹھانے دے گا۔ اس مسئلے کا حل ساجد علیم نے نکالا۔ ریگل روڈ سے چند ڈنڈی پٹی والے لوگوں کو بلایا گیا۔ جنہوں نے اپنی نگرانی میں اے پی پی کا ملکیتی سامان ٹرک میں لدوایا۔ ظاہر ہے کہ طاقت ور کے سامنے کون بولتا ہے۔ اس لیے بغیر کسی پریشانی کے سارا سامان ساجد علیم کے مدینہ ٹاون میں گھر میں رات کے پچھلے پہر منتقل ہو چکا تھا۔ مگر اگلے دن تمام فارغ ہونے والے ملازمین نے لیبر کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کرلیا تھا۔ جس کے تحت ان کو واپس دفتر میں بیٹھنے کا حکم دیا گیا تھا۔ مگر ہمارے پاس تو کوئی دفتر ہی نہیں تھا۔ ذیل گھر کا دفتر بھی خالی کرچکے تھے اور گھر سے ہی کام کرنا پڑ رہا تھا۔ لیبر کورٹ میں دائر ہونے والے مقدمات کو لڑنے کے لئے وکیل کا انتظام کرنا تھا۔ لیبر کے مقدمات کے لئے مشہور وکیل کی خدمات تو برخاست ہونے والے ملازمین نے راتوں رات حاصل کر لیں تھیں۔ اب کسی اور وکیل کو ہی ڈھونڈنا تھا جو کہ ایک ہفتے میں جواب جمع کروا سکے۔ کسی نے میاں محمد اقبال کا نام تجویز کیا تو دھوبی گھاٹ کے علاقے میں ان سے ملنے کے لئے گیا۔ انہوں نے تیس ہزار روپے مانگے تو اے پی پی ھیڈ کوارٹر سے اگلے دن ہی آگئے۔ مقدمے کا آغاز ہوگیا تھا۔ میاں اقبال اور ان کے جونیرز نے مل کر جوابات بنائے اور عدالت میں جمع کرادیے گئے۔ چونکہ فارغ و ہونے والے ملازمین نے ڈائریکتر جنرل ، مینجر ایڈمن کے علاوہ بطور اسٹیشن انچارج مجھے بھی فریق بنایا ہوا تھا۔ اس لیے ہر پیشی پر مجھے بھی پیش ہونا پڑتا۔ لیبر کورٹ کے علاوہ چوہدری رشید احمد کے ایک بھانجے محمد اقبال نے ایک سول کورٹ میں مقدمہ دائر کیا۔ اس کے لئے ایک الگ جواب جمع کروانا پڑا۔