لاہور لاہور اے
تحریر: محمد لقمان
صبح سویر ے جاگے اور جلدی جلدی ناشتہ کیا۔ سردیوں کے موسم میں لاہور کی پی آئی اے فلائٹ کے لئے ضلع راولپنڈی میں واقع ایرپورٹ ساڑھے سات بجے تک پہنچنا اتنا آسان نہیں تھا۔ بہر حال ایرپورٹ وقت پر ہی پہنچ گئے۔ ابھی جہاز کو پرواز کیے چند منٹ ہی گذرے تھے کہ شور کی آواز آئی۔ پتہ چلا کہ اے پی پی اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک رپورٹر پہلی مرتبہ ہوائی سفر کر رہے تھے۔ اس لیے عجب خوف کی وجہ سے انہوں نے رونا شروع کردیا تھا۔ لاہور اور کراچی میں قیام کے دوران بھی وہ صاحب زیادہ تر بیمار ہی رہے۔ جہاز نے اس زمانے کے لاہور ایر پورٹ پر لینڈ کیا تو وہاں ہوٹل تک لے جانے کے لئے گاڑیاں موجود تھیں۔ بتایا گیا کہ کسی ھوٹل کی بجائے چائنہ چوک میں واقع ہرفہ ان نامی گیسٹ ہاوس میں ٹھہرایا گیا ہے۔ میں فیصل آباد میں تبادلے کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد لاہور آیا تھا۔ اس گیسٹ ہاوس کی شہرت عمومی طور پر اچھی نہیں تھی۔ پتہ نہیں اس کا انتخاب کس نے کیا۔ ناشتے کے بعد ملکی اور غیر ملکی صحافی سو میٹر کے فاصلے پر واقع اے پی پی کے لاہور بیورو آفس میں گئے تو اس کی لوکیشن بہت پسند آئی۔ بالکل سامنے باغ جناح ان کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اے پی پی کے دفتر سے نکلتے ہی تاجکستان سے آئے ہوئے صحافی نے الماس خانے جانے کی فرمائش کردی۔ اس سے پوچھا گیا کہ یہ کیا چیز ہے تو اس کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ ریڈ لائٹ ایریا۔ بتایا کہ وسطی ایشیا کی خواتین تو خوبصورتی اور اپنی گوری رنگت کی وجہ سے ہر لحاظ سے پاکستانی خواتین سے بہتر ہیں۔ تو اس کا کہنا تھا کہ وہ سفید رنگت سے تنگ آچکا ہے۔ گویا کہ انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا۔ اس دن کے شیڈیول میں لاہور چڑیا گھر کے علاوہ کوئی اور قابل ذکر جگہ موجود نہیں تھی۔ جب لاہور زو گئے تو سوزی نامی ہتھنی سب کو پسند آئی۔ کراچی اور اسلام آباد کے علاوہ وسطی ایشیا سے آئے شرکا نے ہتھنی پر سواری کی۔ صورت حال اس وقت دلچسپ ہوئی جب ترکی کی اناطولیہ نیوز ایجنسی کی بھاری بھر کم رپورٹر مریم نے بھی سوزی پر سواری کی خواہش کی مگر مہاوت نے منع کردیا۔ چڑیا گھر کی سیر کے بعد باغ جناح گئے۔ شام کو گیسٹ ہاوس پہنچے تو اگلی صبح کا شیڈیول دے دیا گیا تھا۔ صبح سویرے اسٹاک ایکسچینج جانا تھا۔ جہاں اسٹاک مارکیٹ کے بارے میں بریفنگ تھی۔ اگلی صبح اسٹاک ایکسچینج پہنچے تو چیرمین نے پاکستان میں اسٹاک بزنس کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ ترکمانستان سے تعلق رکھنے والی والی ایک صحافی نے جب اسٹاک ایکسچینج کے پی آر او سے مزید معلومات مانگیں تو اس نے شام کو ملنے کا کہہ دیا۔ وہ صاحب پنجاب یونیورسٹی میں ماس کمیونیکیشن کے ٹیچر کے طور پر خواتین کو ہراساں کرنے میں ملوث رہے تھے۔ اس لیے اس خاتون کو شام کو ملنے سے منع کردیا گیا۔ بہر حال غیر ملکی مہمانوں خصوصاً خواتین کی حفاظت بھی ضروری تھی۔ پندرہ نومبر یعنی ہفتے کو لاہور میں قیام کا آخری دن تھا۔ لاہور چیمبر گئے تو شیخ سلیم علی نے بریفنگ دی اور ورکنگ لنچ کا انتظام بھی کیا۔ رات کو فیڈریشن آف چیمبرز نے فائیواسٹار ہوٹل میں ڈنر کا اہتمام بھی کیا ہوا تھا۔ لنچ اور ڈنر کے درمیانی وقفے میں غیر ملکی مہمانوں کو لاہور کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ سب کو مینار پاکستان، بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ، شالیمار باغ اور لاہور میوزیم بھی لے کر گئے۔ انارکلی بازار سے غیر ملکیوں نے خریداری کی۔ شام کو ہرفہ ان پہنچے تو اگلی صبح کراچی جانے کا پروگرام دے دیا گیا۔ صبح سویرے اٹھ کر وقت پر ایرپورٹ پہنچنا تھا۔