خارزار صحافت۔ قسط چھیاسٹھ

0
1611

مرض بڑھتا گیا

تحریر: محمد لقمان

اے پی پی ہیڈکوارٹر ز اسلام آباد سے آنے والے حکم پر بالآخر چوہدری اقبال نامی شخص کے گھر پینتالیس اے بٹالہ کالونی جو کہ حمید پیلیس کی پچھلی گلی میں تھا، کا نچلا پورشن کرائے پر لے لیا۔ اور اکتوبر انیس سو چھیانوے میں وہاں شفٹ ہوگئے۔ سامان اتنا زیادہ نہیں تھا۔ اس لیے شفٹنگ میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئی۔ صرف پی ٹی سی ایل کے فون کی منتقلی میں چند دن لگ گئے۔ دس مرلے کے مکان میں اتنی زیادہ گنجائش تھی کہ چوہدری رشید اور اظہر سہیل مزید درجنوں افراد بھرتی کروا سکتے تھے۔ گھر کے شروع میں ایک بڑا کمرہ تھا وہاں تما م کلیریکل سٹاف تھا سمٹ گیا۔ اسٹیشن مینجر کے لیے مکان کے بالکل آخر میں ایک کھلا کمرہ تھا۔ جس میں پی ٹی سی ایل کا فون لگوایا۔ کمپیوٹر اور فیکس مشین بھی اسی کمرے میں رکھو ا دیے گئے۔ گھر میں کئی باتھ روم اور ایک کچن بھی تھا۔ یوں ایک کشادگی کا احساس ملتا تھا۔ مگر عجیب بات یہ تھی کہ اس دفتر میں جتنا عرصہ بھی رہے، کبھی بھی رشید چوہدری نہیں آئے۔ اسی دوران رشید چوہدری کے ایک بھائی چوہدری غلام محمد کو گریڈ ٹو میں اسسٹنٹ مینجر فیصل آباد میں تعینات کردیا گیا۔ مگر ان کا کچھ عرصے بعد ہی لاہور تبادلہ کردیا گیا۔ اس سے پہلے ایک اور بھانجے محمد اقبال کو بھی گریڈ ٹو میں بھرتی کرلیا گیا تھا۔ گویا کہ اے پی پی روٹی کارپوریشن ہی بن گیا تھا۔ اسی دوران ملک بھر میں سینکڑوں افراد کی بھرتی کے لئے ایک ٹیسٹ کا اہتما م کیا گیا۔ جس میں ہزاروں لوگوں نے حصہ لیا۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ اہل لوگ بھی چن لیے گئے ہوں۔ مگر زیادہ تر سفارش اور واقفیت کی بنیاد پر ہی بھرتی کیے گئے۔ ایک شخص کی سفارش کے لئے میرے قائداعظم یونیورسٹی کے دور کے ایک دوست میرے پاس آئے۔ ان کا میرا ایک اور تعلق بھی تھا کہ ہم نے انیس سو نواسی میں سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری مل کر کی تھی۔ میں نے ان سے معذرت کی کہ میں اس امیدوار کو کمرہ امتحان میں بٹھا کر نقل نہیں کروا سکتا۔ لیکن میرے پاس جب تقرر نامے آئے تو اس شخص کا تقرر نامہ سب سے اوپر تھا۔ اسی طرح بہت سارے اخبارات کے ایسے رپورٹر بھی انگلش اور اردو سروس میں بھرتی کر لیے گئے۔ جو اپنے اخبارات میں تو نوکری کرتے رہے مگر انہوں نے اے پی پی سے ہر ماہ تنخواہ لینے کے سوا کچھ نہ کیا۔ ان میں سے ایک صاحب چند سال پہلے اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں۔ جب حرام اور حلال کی تمیز ختم ہوجائے تو ایسے عمل پر تنقید کرنے والے بھی تھوڑے رہ جاتے ہیں۔بھرتی ہونے والوں میں ایک لڑکا سعید احمد علی واقع اس قابل تھا کہ وہ اے پی پی میں بھرتی ہو۔ مگر دیگر افراد کی وجہ سے وہ بھی سارا عرصہ بدنامی کا شکار رہا۔ اب وہ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد اے پی پی میں ہی نوکری کر رہے ہیں۔ ملاقات ہوتی ہے تو واقعی لگتا ہے کی کسی پڑھے لکھے شخص سے مل رہا ہوں۔ اس کے علاوہ بھرتی کرنے کے لئے رورل کارسپانڈینٹس کی بھی آسامیاں نکالی گئیں جن کو بعد لاہور سمیت بڑے شہروں میں ٹرانسفر کردیا گیا۔ گویا کہ نوکریوں کا ایک بازار لگا دیا گیا تھا۔ میں اور ساجد علیم کبھی اس بھیڑ کو دیکھتے تو پریشان ہوجاتے کہ آخر یہ کھیل کہاں ختم ہوگا۔ اس دوران ہمارے پاس یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن فیصل آباد کے ریجنل مینجر عنایت اللہ دولہ کا آنا جانا شروع ہوا۔ جن سے گفتگو سے ہمارا ذہن تھوڑا سا بٹ جاتا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here