تحریر: محمد لقمان
معروف مزاح نگار ڈاکٹر يونس بٹ نے اپني ايک کتاب ميں ماضي کي ايک معروف اداکارہ کے بارے ميں تحرير کيا ہے کہ اس کا قد تو چار فٹ آٹھ انچ ہے مگر انا آٹھ فٹ چار انچ ہے۔ يہ مثال پاکستان کے اکثر سياسي رہنماوں پر بھي صادق آتي ہے۔ جو انا پسندي کي وجہ سے اپني کسي بھي غلطي کو ماننے کو تيار نہيں۔ حال ہی میں مسلم لیگ ن کے سابق سربراہ نواز شریف نے میمو گیٹ سکینڈل میں پیپلزپارٹی کی قیادت کے خلاف ہونے کو اپنی غلطی تسلیم کیا ہے۔ مگر دیگر معاملات میں ابھی بھی ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ بے نظیر بھٹو اور بعد کی پیپلزپارٹی کی حکومتوں کو گرانے میں اپنی شراکت داری پر شرمندگی کا اظہار نہیں کیا ۔ یہ کوئی نئی روائت نہیں۔ 1971 میں پاکستان دو لخت ہوگيا ۔ مگر 46 سال سے زائد عرصہ گذرنے کے بعد بھي سانحے کے ذمہ دار سياستدانوں اور اداروں کو قوم سے معافي مانگنے کي توفيق نہيں۔ ان کرداروں ميں سے بہت سے لوگ تو اگلے جہان جا چکے ہيں اور ان کي اولاد بھي سياست کي سرخيل بن چکي ہے۔ کارگل کے واقعے ميں پاکستان کي کتني جگ ہنسائي ہوئي۔ سابق فوجي ڈکٹيٹر جنرل پرويز مشرف اس غلطي کو ماننے کو تيار نہيں۔ تين سال تک تحريک انصاف نے قوم کو دھاندلي کي بتي کے پيچھے لگائے رکھا۔ مگر جوڈيشل کميشن نے ان الزامات کو رد کيا تو دھرنا سياست کے تمام کارفرما قوم کا وقت ضائع کرنے پر پشيمان دکھائي نہيں ديتے۔ ماضی قریب میں پانامہ ليکس ميں نواز شريف کو وزارت عظمی سے الگ کیا گیا مگر ابھی تک وہ اپنے آپ کو بے گناہ ہی سمجھتے ہیںَ۔ ملک میں انصاف کے بول بالے کے لئے ضروري ہے کہ کوئي تو اپني غلطي مانے۔ اگر عدليہ حق ميں فيصلہ دے تو زندہ باد کے نعرے لگتے ہيں ورنہ تنقيد کا لامتناہي سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس مغربي دنيا خصوصاً امريکہ ميں سياسي قيادت عموماً اخلاقيات کي بلندي پر نظر آتي ہے۔ ويت نام کي جنگ ہو يا مونيکا ليونسکي سکينڈل، امريکي رہنماوں نے قوم سے معافي مانگ لي۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کي صورت ميں ہميں اپنے جيسا سياستدان نظر آيا ہے۔ مگر عموماً مغربي اقدار ميں اپني غلطي تسليم کرنے ميں کبھي عار نہيں رہي تھي۔ آخر پاکستان ميں ايسا کيوں نہيں۔ سابق وزير اعظم نواز شريف يا عمران خان ايسا کرنے کو کيوں تيار نہيں۔ يہ سياستدان اپني غلطيوں پر قوم سے معافي مانگ کر اچھي مثال تو قائم کرسکتے ہيں۔