کوئي تو اپنے کيے پر شرمسار ہو

0
3220

تحریر: محمد لقمان
معروف مزاح نگار ڈاکٹر يونس بٹ نے اپني ايک کتاب ميں ماضي کي ايک معروف اداکارہ کے بارے ميں تحرير کيا ہے کہ اس کا قد تو چار فٹ آٹھ انچ ہے مگر انا آٹھ فٹ چار انچ ہے۔ يہ مثال پاکستان کے اکثر سياسي رہنماوں پر بھي صادق آتي ہے۔ جو انا پسندي کي وجہ سے اپني کسي بھي غلطي کو ماننے کو تيار نہيں۔ پانامہ لیکس پر بنائی گئی جوائنٹ انوسٹی گیش ٹیم کی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کو اپنی پوزیشن کو کلیر کرنے کے لئے عہدے سے ہٹ جانا چاہیے۔ مگر وہ بھی تصادم پر چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ جس سے ملک میں ایک آئینی اور سیاسی بحران پیدا ہونے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا بھی الیکشن کمیشن کے ساتھ تصادم جاری ہے۔ گویا کوئی بھی اپنی ضد سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ پاکستانی رہنماوں میں اپنی غلطی کو نہ ماننے کا رجحان آزادی کے دنوں سے ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی حکمران اپنی حکومت کو بچانے کے لئے دیگر اداروں کی مدد لیتے رہے۔ 1971 ميں پاکستان دو لخت ہوگيا ۔ مگر46سال گذرنے کے بعد بھي سانحے کے ذمہ دار سياستدانوں اور اداروں کو قوم سے معافي مانگنے کي توفيق نہيں۔ ان کرداروں ميں سے بہت سے لوگ تو اگلے جہان جا چکے ہيں اور ان کي اولاد بھي سياست کي سرخيل بن چکي ہے۔ کارگل کے واقعے ميں پاکستان کي کتني جگ ہنسائي ہوئي۔ سابق فوجي ڈکٹيٹر جنرل پرويز مشرف اس غلطي کو ماننے کو تيار نہيں۔ تين سال تک تحريک انصاف نے قوم کو دھاندلي کي بتي کے پيچھے لگائے رکھا۔ مگر جوڈيشل کميشن نے ان الزامات کو رد کيا تو دھرنا سياست کے تمام کارفرما قوم کا وقت ضائع کرنے پر پشيمان دکھائي نہيں ديتے۔ اب پانامہ ليکس ميں وزيراعظم نواز شريف کے اہل خانہ کے ملوث ہونے کي رپورٹ کے بعد اب تک حکمرانوں کي طرف سے کسي قسم کے افسوس کا اظہار نہيں ہوا۔ انصاف کے بول بالا کے لئے ضروري ہے کہ کوئي تو اپني غلطي مانے۔ اگر عدليہ حق ميں فيصلہ دے تو زندہ باد کے نعرے لگتے ہيں ورنہ تنقيد کا لامتناہي سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس مغربي دنيا خصوصاً امريکہ ميں سياسي قيادت عموماً اخلاقيات کي بلندي پر نظر آتي ہے۔ ويت نام کي جنگ ہو يا مونيکا ليونسکي سکينڈل، امريکي رہنماوں نے قوم سے معافي مانگ لي۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کي صورت ميں ہميں اپنے جيسا سياستدان نظر آيا ہے۔ مگر عموماً مغربي اقدار ميں اپني غلطي تسليم کرنے ميں کبھي عار نہيں رہي تھي۔ آخر پاکستان ميں ايسا کيوں نہيں۔ وزير اعظم نواز شريف يا عمران خان ايسا کرنے کو کيوں تيار نہيں۔ يہ سياستدان اپني غلطيوں پر قوم سے معافي مانگ کر اچھي مثال تو قائم کرسکتے ہيں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here