خار زار صحافت۔۔۔قسط چوراسی

0
973


فیصل آباد سے لاہور واپسی
تحریر: محمد لقمان

انیس نومبر کو صبح سویرے ہی ہوٹل کی کوسٹر گاڑیاں اکونا ورکشاپ کے کراچی سے باہر سے آنے والے شرکا کو لے کر ایر پورٹ روانہ ہو گئیں۔۔رخصت کا وقت بھی عجب ہوتا ہے۔ ہر کسی کی حالت الف لیلہ داستان کے مشہور کردار حسن کی تھی۔ جس کو ایک رات پریاں پرستان لے گئیں اور خوب سیر کروائی۔ مگر اگلی صبح دوبارہ بغداد میں اپنے خستہ حال گھر میں ہی موجود تھا۔ پندرہ دن کا ساتھ ختم ہو رہا تھا۔ وسطی ایشیا کے صحافی دوبئی کے راستے اپنے اپنے ملکوں کے لئے روانہ ہوئے تو پاکستان کے دیگر حصوں سے آنے والوں کی بھی روانگی ہوگئی۔ میں نے کراچی سے فیصل آباد کی فلائٹ میں ٹکٹ بک کروائی ہوئی تھی۔ پاکستان کے مختلف شہروں کی سیر کے بعد فیصل آباد پہنچا تو بیگم اور ننھی سائرہ میرے منتظر تھے۔ اگلی صبح اے پی پی فیصل آباد کے لئے دوبارہ خبریں ڈھونڈنی تھیں ۔ اپنے ساتھی کارسپانڈینٹ ساجد علیم سے روزنامہ ملت کے دفتر میں ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں بتا دیا کہ اب فیصل آباد سے میری مستقل رخصتی کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ میں اے پی پی سے نکالے گئے افراد کی وجہ سے ہونے والی پریشانیوں کو مزید برداشت نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے ایکونا ورکشاپ کے دوران ڈی جی سے فیصل آباد سے لاہور واپسی کی درخواست کی تھی۔ جس پر انہوں نے غور کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ میں نے اس بارے میں اپنے والد صاحب اور بڑے بھائی کو اعتماد میں لیا ہوا تھا مگر اپنی بیگم کو اس وقت بتایا جب ستائیس نومبر انیس سو ستانوے کو میری لاہور ٹرانسفر کے احکامات آئے۔ انہوں نے کافی جھگڑا کیا۔ مگر میں اب مزید فیصل آباد میں نہیں رہنا چاہتا تھا۔ نوکری سے نکالے گئے افراد کے رویے کی وجہ سے میں سکون سے کام نہیں کرسکتا تھا۔ ہر روز توہین عدالت کے کیس میں کسی نہ کسی عدالت میں پیشی ہوتی تھی۔ اے پی پی کے وکیل میاں اقبال کا رویہ بھی مشکوک لگتا تھا۔ بہر حال آرڈر آنے کے ایک روز بعد لاہور دفتر میں دوبارہ جوائننگ دے دی۔ مگر اس بار اکیلے رہنے میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ دو ڈھائی ماہ کی بیٹی ہر وقت یاد آتی تھی۔ اس لیے ایک دو ماہ کے بعد ہی ساندہ روڈ پر نیلہ ٹوکہ سٹاپ کے قریب ایک گھر کا اپر پورشن کرائے پر لیا۔ اور اپنی فیملی کو لاہور لے آیا۔ اب میں اس شہر میں مستقل طور پر آگیا تھا۔ اس کے بعد میری کوئی ٹرانسفر نہیں ہوئی۔ ایک بار اسلام آباد میں ٹرانسفر کی کوشش ہوئی اور دوسری مرتبہ کوئٹہ میں ترقی کے ساتھ بھیجنے کا لالچ دیا گیا۔ مگر میں نے انکار کیا۔ فیصل آباد سے لاہور آنے کے بعد پہلی کوشش توہین عدالت کے درجنوں مقدمات کو ختم کروانا تھا۔ اس کے لئے مال روڈ پر اپنے کمپنی وکیل سید زاہد حسین کے دفتر گیا اور یوں میرے اور ڈائریکٹر جنرل اے پی پی کے خلاف برطرف ملازمین کی طرف سے مقدمات لاہور ہائی کورٹ کے ذریعے ختم کروائے گئے۔ اگرچہ میں فیصل آباد میں درپیش بے چینی سے تو چھٹکارا پاچکا تھا مگر گھر کے بڑھتے خرچوں اور محدود وسائل کی وجہ سے ایک صورت حال کا سامنا دیر تک رہا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here