خار زار صحافت۔۔۔قسط ایک سو تین

0
1122


فوجی حکومت اور سرکاری میڈیا
تحریر: محمد لقمان

جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت کے قیام سے پہلے ہی سرکاری میڈیا خصوصاً اے پی پی، ریڈیو اور پی ٹی وی کے صحافیوں کا اپنی تنظیموں کے اہم عہدوں خصوصاً سربراہی کے لئے فائز ہونے کے مواقع ختم ہو چکے تھے۔اے پی پی میں ایم آفتاب غالباً آخری شخص تھے جو رپورٹر کی پوزیشن سے ترقی کرتے کرتے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے تک پہنچے اور کئی سال تک بیوروکریسی کے رعب میں آئے بغیر نیوز ایجنسی کی سربراہی کی ذمہ داری ادا کرتے رہے۔ مگر ان کے بعد تو ہر تنظیم کا سربراہ وزارت اطلاعات کا بیوروکریٹ ہی ہونے لگا تھا۔ مگر بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کے بعد تو یہ اونٹ بھی پہاڑ کے نیچے آگیا۔ یوں پریس انفرمیشن ڈیپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) کے کئی سال کے اقتدار کا سورج غروب ہوگیا۔ اب سرکاری میڈیا کا ایک نیا باس سامنے آگیا تھا۔ اور یہ تھا افواج پاکستان کا انٹر سروسز پبلک ریلشنز کا ادارہ آئی ایس پی آر۔ بریگیڈیر راشد قریشی اس ادارے کے ڈائریکٹر جنر ل تھے تو لاہور میں لیفٹنٹ کرنل سفیر احمد تارڑ کا طوطی بولتا تھا۔ اس پر اے پی پی میں کام کرنے والے کئی صحافی خوش تھے کہ پی آئی ڈی والے بھی اب کسی کے سامنے سرجھکانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ ایک سویلین ادارے کے لئے کسی طور پر بھی اچھا نہیں تھا۔ اپنے باس بدلنے کا پہلی مرتبہ اس وقت پتہ چلا جب فوجی حکومت کے قیام کے چند ہفتے بعد لاہور میں فورتھ کور ہیڈکوارٹرز میں چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف بڑے کھانے کے لئے آئے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اے پی پی ، ریڈیو پاکستان، پی ٹی وی اور پی آئی ڈی کو ملک کی فوج کے سربراہ اور نئے فوجی حکمران کے کور ہیڈ کوارٹرز کے دورے کی کوریج کے لئے بلایا گیا تھا۔ پی آئی ڈی لاہور کے ڈائریکٹر شفقت جلیل کے ساتھ کور ہیڈ کوارٹر پہنچا تو وہاں کرنل سفیر احمد تارڑ پہلے سے ہی موجود تھے۔ انہوں نے ہمیں ایک الگ سے لگی ٹیبل کے گرد بٹھایا اور بتایا کہ تقریب میں کیا کچھ ہونے والا ہے۔ ایک انتہائی فوجی تقریب کو کور کرنے کا یہ میرے لیے پہلا موقع تھا۔ اس سے پہلے اے پی پی میں نو سالہ کیریر میں ہمیشہ آئی ایس پی آر کی طرف سے ایک ڈسپیچ رائڈر کے ذریعے ایک پریس ریلیز ملتی تھی جس میں کسی بھی چیف آف آرمی اسٹاف کے دورے میں تفصیل ہوتی تھی۔ عموما ً افواج پاکستان کی ہر ممکنہ خطرے کے بارے میں تیاری کا عزم ہوتا تھا۔ مگر اس بار یہ عزم ہمیں خود ایک خبر کی شکل میں تحریر کرنا تھا۔ بڑا کھانا ختم ہوا تو کرنل سفیر احمد تارڑ اور شفقت جلیل میرے ساتھ اے پی پی لاہور کے دفتر میں آئے ۔ جب میں اپنے پی سی کے سامنے بیٹھ کر خبر ٹائپ کرنے لگا تو دونوں احباب بار بار ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ جس پر میں نے بڑے ادب سے عرض کیا کہ اگر وہ مجھے خبر لکھنے کا موقع دیں گے تو جلد کام مکمل ہو جائے گا۔جب میں نے خبر مکمل کی تو ڈائریکٹر آئی ایس پی آر نے اس کو اپنے فرمے کے مطابق دوبارہ لکھا۔ گویا کہ وہی فوج کی آپریشنل تیاری اور دشمن کا مقابلہ کرنے کا عزم ہی خبر کی لیڈ ٹھہرا تھا۔ اس کے بعد یہ اندازہ ہوگیا کہ سویلین اور فوجی خبر میں کیا فرق ہوتا ہے۔ بعد کے دنوں میں جب بھی چیف ایگزیکٹو کی کسی فوجی نوعیت کی تقریب میں جانے کا موقع ملا۔ بسیار نگاری سے پرہیز ہی کیا اور جو کہا گیا وہی کیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here