خار زار صحافت۔۔۔قسط اناسی

0
1054

اکونا ورکشاپ ہوئی تمام

تحریر: محمد لقمان

تین نومبر کو اسلام آباد کے ہوٹل میں شروع ہونے والی ورکشاپ عملی طور پر بارہ نومبر کو ختم ہوگئی۔ اختتامی تقریب میں مہمان خصوصی وفاقی وزیر اطلاعات و فروغ ابلاغ مشاہد حسین سید تھے۔ پشاور سے دس نومبر کو واپسی کے بعد بھی ورکشاپ کے آخری دو دنوں میں ایم آفتاب صاحب نے ایک ایک منٹ کو شرکا کے فائدے کے لئے استعمال کیا۔ سابق وفاقی سیکرٹری خزانہ علیم اللہ قاضی نے بجٹ سازی کے پورے عمل کو تفصیل سے سمجھانے کی کوشش کی۔ یہ بتایا کہ ارکان پارلیمنٹ سے مختلف ترقیاتی سکیمیں کیسے آتی ہیں اور پاک سیکریٹیریٹ میں بیٹھے بابو کیسے محدود وسائل سے ایسا بجٹ تیار کرتے ہیں جس میں بظاہر ہر کسی کو اپنا حصہ نظر آتا ہے۔ مگر بجٹ پیش ہونے کے بعد جہاں اپوزیشن اس کو اعداد و شمار کا گورکھ دھندا کہتی ہے تو وہیں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں صحافی حضرات اس کے بخیے اکھیڑ دیتے ہیں۔ ٹی وی صحافت خصوصاً الیکٹرونک میڈیا پر اقتصادی خبروں کے بارے میں پاکستان میں نجی شعبے میں نیوز کے پہلے پروڈکشن ہاوس کے بانی ظفر صدیقی نے بھی ایک سیشن میں لیکچر دیا۔ اس وقت یہ اندازہ نہیں تھا کہ ایک دہائی کے بعد بندہ ناچیز بھی ظفر صدیقی صاحب کے ٹی وی کے لئے کام کرے گا۔ گیارہ نومبر کی شام راولپنڈی کے مشہور تجارتی مرکز راجہ بازار گئے جہاں ملکی اور غیر ملکی صحافیوں نے اپنی اپنی اوقات کے مطابق شاپنگ کی۔ وسطی ایشیا سے آئے ہوئے صحافی تو لیدر جیکٹس ہی خریدتے رہے۔ پوچھا کہ کیا ان کے ممالک میں یہ جیکٹس نہیں ملتیں تو جواب آیا کہ پاکستانی لیدر جیکٹ ان کے ممالک میں اچھے داموں میں بک جاتی ہے۔ گویا کہ انہوں نے ایک تربیتی ورکشاپ کے دوران بھی مالی منافعت کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا تھا۔ بارہ نومبر کی صبح سابق چیرمین ایف بی آر عبداللہ یوسف جو اس وقت وفاقی سیکرٹری سرمایہ کاری بورڈ تھے، انہوں نے بڑے ہی بیوروکریٹک انداز میں پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع پر لیکچر دیا۔ ہانگ کانگ کے ایک بینک کے نمائندے خواجہ سکندر حسین نے سرکاری اور نجی شعبے میں سرمایہ کاری کی حرکیات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ مگر ہم شرکا تو اب یہ سوچ رہے تھے کہ آخر ورکشاپ کے تربیتی سیشن کب ختم ہوں گے۔ سہہ پہر کو ہونے والی تقریب میں مشاہد حسین سید کے علاوہ وزارت اطلاعات کے سینیر حکام بھی آئے تھے۔ پی ٹی وی کے کیمرہ مین اور دیگر اسٹاف بھی موجود تھا۔ ورکشاپ کے شرکا کو باری باری بلایا گیا اور وزیر اطلاعات نے سرٹیفکیٹ کے علاوہ ایک ایک سونیر بھی دیا۔ شام کو ایڈونچر ان گیسٹ ہاوس میں واپس آئے تو بتایا گیا کہ صبح جلدی اٹھیں اور وقت پر ناشتہ کریں کیونکہ پی آئی اے کی فلائٹ سے لاہور پہنچنا ہے۔ اب ورکشاپ کے باقی چار پانچ روز میں تو صرف سیر سپاٹا ہی تھا۔ جس کی وجہ سے ہر کوئی خوشگوار موڈ میں تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here