ایم آفتاب : پاکستانی صحافت کا درخشندہ ستارہ

0
622


تحریر محمد لقمان

یقین نہیں آتا کہ ایم آفتاب اب ہم میں نہیں رہے۔ اتوار کی صبح واشنگھٹن میں رہائش پذیر میرے اے پی پی کے بیچ میٹ علی عمران کا ایک پیغام ملا کہ ایم آفتاب کا اسلام آباد میں انتقال ہو گیا ہے۔ یہ جان کر ایسے لگا کہ جیسے دل مٹھی میں آگیا ہو۔ اے پی پی کے انیس سو نوے کے بیچ کے ارکان کے لٗے تو وہ ایک عظیم رول ماڈل تھے۔ جنہوں نے آج سے اکتیس بتیس سال پہلے زیر تربیت صحافیوں کو تربیت دی کہ ایمانداری سے بھی خبر رپورٹ کی جاسکتی ہے۔ اور کبھی بھی خبر میں جھوٹ کی ملاوٹ فائدہ مند نہیں ہوتی۔ بظاہر وہ غصیلی شخصیت کے مالک تھے لیکن اندر سے تھے اتنے ہی نرم اور شفیق۔
میری ایم آفتاب سے پہلی ملاقات اے پی پی لاہور بیورو کے دفتر میں ہوئی۔ انیس سو نوے میں یہ غالباً اگست یا ستمبر کا مہینہ تھا۔ میں نے اے پی پی میں جرنلسٹس کی بھرتی کے لئے تحریری ٹیسٹ پاس کیا تو مجھے انٹرویو کے لئے اے پی پی اسلام آباد سے خط آیا جس میں مجھے لاہور کے چائنہ چوک میں واقع اے پی پی کے بیورو آفس میں صبح سویرے پہنچنے کے لٗے کہا گیا تھا۔ فیصل آباد سے لاہور پہنچا اور رکشے کے ذریعے ون اے ایل ڈی اے فلیٹس پہنچا۔ وہاں امیدواروں کا جیسے رش لگا ہوا تھا۔ میری باری آئی تو مجھے بیورو چیف کے دفتر میں جانے کو کہا گیا۔ کمرے میں دو افراد تشریف فرما تھے۔ دونوں کی عمر پچاس سے زیادہ تھی اور دونوں ہی فربہ تھے۔ مگر ایک کے چہرے پر سختی اور دوسرے کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ سخت طبیعت والے اے پی پی کے ڈائریکٹر نیوز ایم آفتاب اور دوسرے شخص اے پی پی لاہور کے بیورو چیف سلیم بیگ تھے۔ ایم آفتاب نے بھاری آواز میں میز کی دوسری طرف پڑی کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔ نام کی تصدیق کی۔ کہا کہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے پڑھے ہو تو پرویز اقبال چیمہ کو بھی جانتے ہو گے۔ بتایا کہ وہ ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے چیرمین تھے۔ جواب آیا کہ میرے دوست ہیں۔ دونوں افراد نے مختلف سوالات پوچھے۔ آخر میں ایم آفتاب نے پوچھا کہ ٹائپنگ آتی ہے۔ بتایا کہ جی بالکل۔ طنزیہ لہجے میں سوال آیا کہ کیا ایک فقرہ ایک گھنٹے میں ٹائپ کرسکو گے۔ بتایا کہ ٹائپنگ فیصل آباد کے ایک کمرشل کالج سے سیکھی ہے ۔ تو ان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ دیکھنے کو مل گئی۔ انٹرویو کے اختتام پر کہا گیا کہ نتیجے کا جلد بتا دیا جاٗے گا۔ کوسٹر پر لاہور سے فیصل آباد جاتے ہوٗے ذہن میں آیا کہ سینکڑوں لوگ انٹرویو کے لٗے آئے ہیں یقینا یہ جاب انہی کو ملے گی جن کی کوئی سفارش ہوگی۔ مگر چند ہفتوں کے بعد ایک ٹیلی گرام موصول ہوا جس میں مجھے سولہ نومبر انیس سو نوے کو اسلام آباد پہنچنے کا کہا گیا تھا۔ اس کے بعد ٹریننگ کے دوران جو کچھ ہوا میں نے اس کا اپنی خود نوشت خار زار صحافت میں کافی ذکر کیا ہے۔ ٹریننگ کے بعد مجھے اسلام آباد سے لاہور بھیج دیا گیا۔ مگر انہوں نے لاہور میں بھی میرا ، آمنہ حسن ، وسیم فاطمہ اور علی عمران کا پورا خیا ل رکھا۔ جس کی وجہ سے کئی مرتبہ لاہور بیورو میں ہم سے سینیر حسد کا شکار بھی ہوتے رہے۔ انیس سو اکیانوے میں انیس سو نوے کے بیچ کے اکثر ارکان کو تھامسن فاونڈیش کے زیر اہتمام سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ورکشات میں شرکت کے لئے اسلام آباد اکٹھا کیا گیا۔ انیس سو ترانوے میں مجھے تہران میں ڈویلپمنٹ جرنلزم کی تربیتی ورکشاپ میں بھجوایا۔ اسلام آباد میں تعینات لوگوں کو درجنوں ٖغیر ملکی دورے بھی ملے۔ گویا انہوں نے ہر نوجوان صھافی کی دستگیری کی۔ ہر سال وفاقی بجٹ کی کورریج کے لئے مجھے لاہور سے اور دیگر افراد کو کراچی، پشاور اور کوئٹہ سےٗ اسلام آباد بلایا جاتا۔ اس طرح ہماری اقتصادی صحافت میں تربیت ہوتی رہی۔ انیس سو پچانوے میں راٗٹرز فاوونڈیشن اور انیس سو ستانوے میں اکونا ورکشاپ میں اسلام آباد جانے کا موقع ملا۔ موضوعاتی فیچر لکھنے کے لئے بھی وہ ہمیں ترغیب دیتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ میرے جیسا مختصر نویس بسیار نویس بننے میں کامیاب ہوگیا۔ وہ اے پی پی سے ریٹائر ہوئے تو کئی مرتبہ ان کے اسلام آباد میں گھر میں جانے کا موقع ملا۔ ہر متبہ بڑی شفقت سے ملے۔ پھر میں نے بھی اے پی پی چھوڑ دی۔ آج سے دو سال پہلے میں نے ایک دوست سے ان کا موبائل فون لیا اور ان کو کال کی۔ کمال شفقت سے انہوں نے میرا حال احوال پوچھا اور کہا کہ کوشش کرو کہ الیکٹرونک میڈیا میں اپنا مقام بناو۔ اب وہ ہم میں نہیں رہے مگر ایک اچھا صحافی بنانے کے لئے مجھ سمیت انہوں نے انیس سو نوے کے بیچ کے ارکان پر جو مہربانیاں کیں ان کو آخری سانس تک یاد رکھیں گے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here