آج کا پھل: بیر

0
1947

تحریر: محمد لقمان

نئی نسل  کو  نیوزی لینڈ  سے  درآمد کردہ کیوی پھل کا تو پتہ ہے۔ مگر ان کو مقامی اور موسمی پھلوں کے بارے میں بہت کم ہی علم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی مقامی پھل جو طبی اور غذائی لحاظ سے انسانی صحت کے لئے بہت مفید ہیں، ان کی طرف نوجوان نسل کا بہت کم رجحان ہے۔ خصوصاً شہری علاقوں میں بچوں کو آم، سیب ، کیلے اور درآمدی پھلوں کے علاوہ پھلوں میں کم ہی رغبت نظر آتی ہے۔ عدم دلچسپی کا نشانہ بننے والوں میں صدیوں سے برصغیر پاک۔وہند کا پسندیدہ موسمی پھل بیر بھی ہے۔ بیر کو بعض لوگ غریب کا سیب بھی کہتے ہیں جو  کسی طور پر بھی غلط نہیں کیونکہ یہ نسبتاً سستا اور غذائت سے بھرپور پھل ہے۔ بعض لوگوں کو یہ سیب سے زیادہ لذیذ معلوم ہوتا ہے۔ بیر کی عام طور پر تین اقسام بیان کی جاتی ہیں، پیوندی بیر، تخمی بیر اور جنگلی بیر۔ پیوندی بیر کو سیوبیربھی کہا جاتا ہے یہ بیر بڑے اور خوش ذائقہ ہوتے ہیں۔ یہ اوپر سے سبز ہوتے ہیں اور ان کا گودا سفید ہوتا ہے۔ اس بیر کی شکل لمبوتری اور لمبائی ایک سے دو انچ تک ہوتی ہے۔ انہیں پیوندی بیر اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان بیروں کی قلم لگائی جاتی ہے۔ اس کے درخت کو بیج کے ذریعہ سے نہیں بویا جاتا۔ تخمی بیر کو کاٹھے بیر بھی کہا جاتا ہے اور اس کی شکل گول ہوتی ہے۔ ان کا رنگ سرخ ہوتا ہے۔ پیوندی کے مقابلے میں یہ بیر چھوٹے ہوتے ہیں۔ ان کا ذائقہ کھٹ مٹھا ہوتا ہے۔ انہیں تخمی اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ انہیں بیج بُو کر حاصل کیا جاتا ہے۔ تیسری قسم جنگلی ہے اسے جھڑ بیری بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بیر بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ ان کا سائز مٹر کے دانوں کے برابر ہوتا ہے۔ اس میں مٹھاس سے زیادہ ترشی ہوتی ہے۔ جھڑ بیری عام طور سے پہاڑی علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ جھاڑیاں خود رو ہوتی ہیں اور تقریباً پوری دنیا میں پائی جاتی ہیں۔ ان جھاڑیوں پر پتے کم اور کانٹے زیادہ ہوتے ہیں۔ ان جھاڑیوں کو بکریاں بڑے شوق سے کھاتی ہیں۔

پاکستان میں بیر کا زیر کاشت رقبہ  11 ہزار ایکڑ کے قریب  ہے۔ جبکہ سالانہ پیداوار 25 ہزار ٹن  ہے۔ فیصل آباد میں زرعی تحقیق کے ادارے ایوب ایگریکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے 2019 میں بیر کی چھ نئی اقسام۔۔۔ پاک وائٹ ، عمران۔ انوکھی۔ صوفن۔  بہاول اور یزمان تیار کیں جن کو پنجاب کے مختلف علاقوں میں کاشت کیا جاسکتا ہے۔

بیر میں تقریباً اتنے ہی معدنیات اور وٹامن ہوتے ہیں جتنے کہ مہنگے پھلوں میں۔  کیلشیم، فاسفورس اور فولاد کے علاوہ وٹامن اے، بی اور  سی کی کافی مقدار ہوتی ہے۔ ان چیزوں کے علاوہ اس میں گلوکوز بھی ہوتا ہے جو جسم کو فوری توانائی فراہم کرتا ہے۔ دست اور پیچش بیر نظام ہضم کیلئے بہت مفید ہے۔ اس کے استعمال سے معدے اور آنتوں کی کمزوری دور ہو جاتی ہے۔ بیر کو بھون کر دست اور پیچش کی شکایت میں استعمال کراتے ہیں۔

ماہرین طب  کے مطابق سوکھے ہوئے بیر کھانے سے بھی دست بند ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات بچوں اور بڑوں کی آنتوں میں کیڑے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی صحت خراب رہتی ہے۔ ان کیڑوں کو خارج کرنے کیلئے میٹھے بیروں کو کچل کر ان کا پانی 24 گرام سے 128 گرام تک کی مقدار میں پلانا مفید ہوتا ہے۔ اس کے استعمال سے کیڑے خارج ہو جاتے ہیں۔ بیر کے استعمال سے خون صاف ہو جاتا ہے اور اس کے زہریلے مادے خارج ہو جاتے ہیں۔ روزانہ آٹھ دس بیر کھانے سے چہرے کے داغ دھبے صاف ہو جاتے ہیں اور چہرہ سرخ اور تروتازہ رہتا ہے۔ ٹوٹی ہوئی ہڈی بیر کی گٹھلی عام طور پر کھانے کے بعد پھینک دی جاتی ہے لیکن قدرت نے اس بظاہر فالتو چیز میں بڑی خوبیاں رکھی ہیں۔ یہ گٹھلی پیس کر ٹوٹی ہوئی ہڈی کے مقام پر لگانے سے ہڈی جڑ جاتی ہے۔ اس کی گٹھلی عضلاتی چوٹ یعنی گوشت کو متاثر کرنے والی چوٹ اور موچ میں فائدے مند ہوتی ہے۔ اس فائدے کیلئے بیر کی گٹھلی کوٹ کر پانی میں اتنا جوش دیں کہ پانی گاڑھا ہو جائے۔

لمبے‘ مضبوط اور چمکیلے بالوں کیلئے بیر کے پتوں کو پانی میں اچھی طرح جوش دے کر اس پانی سے سر کے بال دھوئیں تو بال لمبے، مضبوط اور چمکیلے ہو جاتے ہیں اور سر کی خشکی جاتی رہتی ہے۔ اگر بال گرتے ہوں تو اس جوشاندے سے بال دھونے سے بال گرنا بند ہو جاتے ہیں۔ بواسیر کے مقام پر بیری کے درخت کی جڑ پانی میں پیس کر لیپ کرنا مفید ثابت ہوتا ہے اس کے علاوہ جڑ کو پیس کر جگر کے مقام پر مقامی طور پر لیپ کرنے سے بڑھا ہوا جگر کم ہو جاتا ہے۔

بیر کی گٹھلی عام طور پر کھانے کے بعد پھینک دی جاتی ہے لیکن قدرت نے اس بظاہر فالتو چیز میں بڑی خوبیاں رکھی ہیں۔ یہ گٹھلی پیس کر ٹوٹی ہوئی ہڈی کے مقام پر لگانے سے ہڈی جڑ جاتی ہے۔ اس کی گٹھلی عضلاتی چوٹ یعنی گوشت کو متاثر کرنے والی چوٹ اور موچ میں فائدے مند ہوتی ہے۔ گویا کہ  اپنے لان یا گھر کے سامنے بیری کا درخت لگانا بہت مفید ہے۔ مگر یہ محاورہ بھی یاد رکھیں کہ جہاں بیری  کا درخت  ہو۔ وہاں  پتھر  بھی  آتے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here