سچ یہ بھی ہے۔۔۔گاہک کی موت

0
180

تحریر:  محمد لقمان

ایک زمانے میں  تاجروں خصوصاً  خوجہ شیخ  برادری  میں  یہ  پنجابی کہاوت  بہت  مشہور تھی کہ  گاہک تے موت  دا کوئی پتہ نہیں ۔ کدوں  آ جاوے۔  میرا  بچپن  تو  یہ  کہاوت  سنتے ہی  گذرا۔  لیکن  ماہ و سال بدلنے کے ساتھ ہی پاکستان کے تجارت کے شعبے میں  وہ  لوگ  بھی  آگئے  جن  کا  مطمع نظر ایک  ہی  دن  میں پورے مہینے کے برابر  کمائی کرنا تھا۔اب یہ کہاوت تھوڑی سی تحریف کے  بعد ‘ گاہک دی موت دا کوئی پتہ نہیں، دکاندار دے ہتھوں کدوں آ جاوے، بن چکی ہے۔  دکاندار کا ہدف اب زیادہ سے زیادہ اشیائے صرف بیچنا نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ دام میں چیز بیچنا ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے ہندو بنیا  اور  مسلمان خوجہ  ایک آنہ منافع کما کر سو روپے کا سامان بیچ دیتے تھے۔ ہندو بنیا  تو  قیام پاکستان  کے ساتھ ہی  بھارت میں منتقل ہوگیا۔ مسلمان خوجہ بھی زیادہ دیر  تک  اس  اصول کے ساتھ چل نہ سکا۔ رہی سہی کسر کسانوں اور دیگر پیشوں سے تجارت کے  شعبے میں آنے والے افراد نے پوری کردی۔ سال میں دو فصلوں کے موقع پر یک لخت روپیہ پیسے دیکھنے والوں نے ہر روز کاروبار سے اتنی ہی رقم کمانے کا مشن بنا لیا ۔ اب ہر زمیندار کسی نہ کسی صنعت کا مالک بھی بن چکا ہے۔ کئی مربع زمین پر گندم اور چاول اگانے والا اب فلار ملز اور رائس مل کا بھی مالک بن چکا ہے۔ اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو جب جی چاہے، کارٹل کا حصہ بن کر بڑھا بھی دیتا ہے۔ سیاست میں آنے والے کئی زمیندار تو ٹیکسٹائل اور دیگر شعبوں میں بھی اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اب بازار میں کہیں بھی سرکارکے طے کردہ ریٹ پر کوئی کھانے پینے کی چیز نہیں ملتی۔ اگر پیاز کا سرکاری ریٹ  240 روپے فی کلو ہے  تو آپ کو بڑے شہروں خصوصاً لاہور اور اسلام آباد  کے کئ علاقوں میں 300 روپے فی کلو سے کم نہیں ملے گا۔ 450 روپے کلو والا ادرک 700 سے کم دستیاب نہیں ہوگا۔ یہ سبزیاں ہوں گی تو درجہ دوم کوالٹی کی مگر ملیں گی آپ کو درجہ اول سے بھی 30 فیصد تک مہنگی۔ مصالحہ، چائے ، ہلدی، دودھ اور مرچیں تو خالص بھی نہیں ملتیں۔

یہی صورت حال دالوں اور گوشت کے سلسلے میں بھی نظر آتی ہے۔ 800 روپے فی کلو قیمت والا گائے کا گوشت  1200 روپے فی کلو کے حساب سے دستیاب ہے۔ اگر زینتھ یا کسی اور پراسسنگ کمپنی کا چاہیے تو وہ اس سے کہہیں مہنگا دستیاب ہے۔ مٹن کی سرکاری قیمت 1600 روپے فی کلو ہے مگر دستیابی 2200 روپے تک ہے۔ چکن کی تو صورت حال اس سے بھی کہیں زیادہ مشکل ہے۔ اب تو برائلر مرغی کا صاف ستھرا گوشت 700 روپے فی کلو سے کم دستیاب نہیں۔ پراسسڈ چکن میٹ تو اس سے کہیں زیادہ مہنگا ہے۔ فارمی انڈوں کی قیمت بھی اس وقت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ ایک درجن انڈے 450 روپے تک دستیاب ہیں۔ مصری مرغی کے انڈے 550 اور دیسی انڈے 750 روپے فی درجن  سے کم نہیں ملتے۔ پاکستانی روپے کی بے توقیری کے بعد بھی کئی دالیں مرغی سے بھی مہنگی ہوچکی ہیں۔ اور گھر کی مرغی دال برابر کا محاورہ بھی درست ہوگیا ہے۔ عام دکاندار کے ساتھ ساتھ مل مالکان بھی لوٹ مار کے کھیل میں پوری طرح ملوث ہیں اور مہنگائی کے اس کڑاہے میں اپنا اپنا لچ تل رہے ہیں۔ فلار مل مالکان کا جب جی چاہتا ہے اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت میں اضافے کو بنیاد بنا کر آٹا مہنگا کر دیتے ہیں۔ چینی اور گھی ملوں کے مالک سیٹھ بھی ایسے کسی موقع کو نہیں چھوڑتے۔  اس سلسلے میں ان صنعتوں کی ایسوسی ایشنز میڈیا میں موجود اپنے ہمدردوں سے بھی فائدہ اٹھاتی ہیں۔ کھانے پینے کے علاوہ ایل پی جی کا کاروبار میں تو قیمتوں میں اضافے کی افواہوں سے ہر روز کروڑوں روپے کی اضافی رقم صارفین عوام کی جیبوں سے نکال لی جاتی ہے۔  ان حالات میں کہیں بھی سرکار نظر نہیں آتی۔ سبزی منڈیوں میں مارکیٹ کمیٹیوں کے اہلکار روزانہ اور ماہانہ کی بنیاد پر بھتہ کی وصولی سے نہیں گھبراتے اور بازاروں میں بھی مجسٹریٹ کم ہی نظر آتے ہیں۔ ان حالات میں عموما معمر افراد یہ دعا مانگتے نظر آتے ہیں۔ کہ کاش بنیا واپس آجائے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here