سفر نامہ کشمیر ۔۔۔قسط پانچ (آخری)

0
733

چونتیس سال کے بعد ملاقات

تحریر: محمد لقمان
بڑی عجب صورتحال ہوتی ہے جب آپ کسی شخص سے چونتیس سال کے بعد ملیں۔ ایسا ہی مظفر آباد جاکر فیاض علی عباسی سے انیس سو ستاسی کے بعد ملاقات کے موقع پر ہوا۔ فیاض علی عباسی جو کہ اس وقت آزاد کشمیر کی حکومت میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہیں، میرے ساتھ قائد اعظم یونیورسٹی میں رہے ہیں۔ جب دسمبر انیس سو ستاسی میں بین الاقوامی تعلقات میں ایم ایس سی مکمل ہوئی۔ تو میں واپس فیصل آباد آگیا۔ اس کے بعد آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والی فیاض علی عباسی سے تین دہائیوں تک رابطہ نہ ہوسکتا۔ چند سال پہلے فیس بک کے ذریعے دوبارہ ایک دوسرے سے شناسائی ہوئی۔ نومبر دو ہزار اکیس میں ایگریکلچر جرنلسٹس اایسوسی ایشن کے وفد کے ساتھ میں مظفر آباد میں ایک ٹریننگ ورکشاپ میں شرکت کے لئے گیا۔ تو فیاض علی عباسی اور ایک کلاس فیلو احسان خالد کیانی سے ملنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ دونوں میرے فیس بک پر دوست تھے۔ مگر میرے پاس ان کا سیل نمبر نہیں تھا۔ بہرحال دونوں سے فیس بک میسنجر کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوشش کی اور اپنا سیل نمبر وہاں چھوڑ دیا۔ مگر احسان کیانی کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ البتہ فیاض عباسی نے وٹس ایپ کے ذریعے رابطہ کرلیا۔ ایک لمبے عرصے کے بعد ایک دوست کی آواز سننے کا بھی ایک عجب تجربہ ہوتا ہے۔ طے ہوا کہ شام کو ملاقات ہوگی۔ میں نے ان کو پی سی مظفر آباد جہاں میں ٹھہرا ہوا تھا۔ آنے کو کہا ۔ مگر انہوں نے مجھے اپنی سرکاری رہائش گاہ پر آنے کی تجویز دی۔ میں نے دی نیوذ کے سینیر کارسپانڈنٹ منور حسن کو اس بارے میں بتایا تو انہوں نے ساتھ جانے کو کہا۔ رات آٹھ بجے کے قریب فیاض علی عباسی نے گاڑی بھیجی ۔ یوں ہم جناح برج کے پاس واقع ان کی سرکاری رہائش گاہ پر پہنچ گئے۔ ہمیں لینے کے لئے وہ گھر کے لان میں موجود تھے۔ سلیپنگ سوٹ میں ملبوس تھے۔ گلے ملے اور اندر ڈرائنگ روم میں لے گئے۔ ایک سینیر بیوروکریٹ ہونے کے باوجود بھی ان کی شخصیت میں کوئی اکڑ نظر نہیں آئی۔ انکسار اور کھلا پن بہت اچھا لگا۔ یقینا وہ انیس سو ستاسی کے شرمیلے سے فیاض عباسی تو نہیں تھے۔ لیکن برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کے تعلیم کے باوجود ان کی شخصیت میں سادگی تھی۔ جو کہ مجھے بہت اچھا لگی۔ سوچا کہ یار تو اپنا ہی ہے۔ ہمارے جیسا ہی ہوگا۔ بڑی دیر تک کلاس فیلوز کے بارے میں باتیں ہوتی رہیں۔ فیاض عباسی آزاد کشمیر کے سیکرٹری توانائی بھی رہ چکے ہیں۔ اور حال ہی میں مکمل ہونے والے کروٹ ہائیڈل پاور منصوبے کی تکمیل میں ان کا اہم کردار رہا ہے۔ اس لیے منور حسن ان سے آزاد کشمیر میں پن بجلی کے پوٹینشل اور منصوبے نہ بننے کی وجوہات کے بارے میں پوچھتے رہے۔ جن کا انہوں نے بڑا کھل کر جواب دیا۔ ڈنر کے لئے انہوں نے دنبے کی کڑاہی کا انتظام کیا ہوا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ہر لاہوری مٹن کا شوقین ہوتا ہے۔ مگر جب نے بتایا کہ میں مٹن نہیں کھاتا تو وہ بڑے پریشان ہوئے۔ اور میرے لیے مچھلی، سبزی اور دال کی ڈشز کا اتظام کیا۔ گپ شپ میں تقریباً چار گھنٹے گذر گئے۔ رات بارہ بجے کے بعد انہوں نے اپنی گاڑی پر ھوٹل میں ڈراپ کروایا۔ مجھے افسوس ہوا کہ اگر احسان کیانی سے بھی ملاقات ہوجاتی تو کتنا اچھا ہوتا۔ وہ بھی آزاد کشمیر حکومت میں وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اور سینیر ممبر بورڈ آف ریونیو رہ چکے ہیں۔ فیاض علی عباسی سے ملاقات سے تقریبا! ڈیڑھ سال پہلے مہمند ڈیم کے دورے کے دوران پشاور میں میاں عدیل الدین سے بھی تین دہائیوں کے بعد ملاقات ہوئی تھی۔ وزارت تعلیم کے وفاقی سیکرٹری ڈاکٹر ندیم شفیق ملک سے دو ہزار انیس میں لاہور میں ملاقات ہوئی۔ مگر ایک سال بعد ہی ان کے انتقال کی خبر ملی تو بہت افسوس ہوا۔ انسا ن کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے بچپن اور زمانہ طالب علمی کے دوستوں میں ملاقات ہوتی رہے۔ مگر اس مصروفیت کے دور میں کون کسی سے آسانی سے ملتا ہے۔ بہر حال اگلے روز ہی مظفر آباد سے لاہور واپسی ہوگئی۔ مگر ایک دوست سے چونتیس سال کے بعد ملنے کا سرور کئی روز تک برقرار رہا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here