وادی کشمیر۔۔۔سفرنامہ قسط تین

    0
    921

    پیر چناسی۔ مظفر آباد کے دامن میں سیاحتی مقام

    تحریر: محمد لقمان

    مظفر آباد کے قیام کے دوران ایک دن پیر چناسی جانے کا موقع بھی ملا۔ پہاڑی کی چوٹی پر واقع یہ تفریحی مقام آزاد کشمیر کے دارالحکومت سے صرف تیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ مگر دشوار گذار راستوں کی وجہ سے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنا کوئی آسان کام نہیں۔ دو سے تین گھنٹے تو لگ ہی جاتے ہیں۔ پہلے جب سڑک کافی خراب تھی تو صرف جیپیں ہی جاتی تھیں۔ مگر اب ایف ڈبلیو او نے سڑک کو کافی حد تک کشادہ بنا دیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ٹویوٹا کوسٹر پر سفر کافی آسان اور محفوظ رہا۔۔ اگر چہ نومبر کے تیسرے ہفتے میں مظفر آباد کے کسی علاقے میں برف باری کے آثار نہیں ملے تھے۔ مگر پیر چناسی کی چوٹیوں پر بر ف پڑی مل ہی گئی تھی۔ یعنی یہاں نومبر کے مہینے میں ایک مرتبہ برف باری ہو چکی تھی۔ اس علاقے کا نام پیر چناسی کیسے پڑا۔ اس کے بارے میں مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ اس چوٹی پر ایک صوفی بزرگ سید حسین شاہ بخاری نے سکونت اختیار کی جو یہاں کئی سال تک عبادت میں مصروف رہے۔ صوفی بزرگ کی وفات کی بعد انہیں اس چناسی نامی پہاڑی چوٹی پر ہی دفنا دیا گیا۔یوں پیر چناسی کا سیاحتی مقام بنیادی طور پر صوفی بزرگ سید حسین شاہ بخاری کے مزار سے منسوب ہے۔
    مظفر آباد کے مشرق میں واقع یہ مقام سطح سمندر سے 11000 فٹ کی بلند ی پر ہے۔ جس وقت ہم وہاں پہنچے تو تیز ہوائیں چل رہی تھیں۔ نماز کے لئے مسجد میں جا کر وضو کیا تو ایسے لگا کہ جیسے ٹھنڈے پانی کی وجہ سے ہاتھ پاوں سن ہو گئے ہیں۔ یہی حالت واش روم جانے والوں کی بھی تھی۔ کوٹ اور پل اوور کے باوجود بھی ٹھنڈ لگ رہی تھی۔ پیر حسین شاہ بخاری کے مزار پر جا کر سب نے فاتحہ پڑھی اور کچھ دیر احتراماً کھڑے رہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں سے سیاحوں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ اس لٗئے چوٹی پر موجود چائے اسٹالز پر کافی رش تھا۔ جتنی سردی تھی اس میں چائے پینے سے ایک عجب راحت ملی۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ چائے کے اسٹال پر بیٹھ کر موسم کا مزا لیا۔ اس سے میں جب بھی مظفر آباد
    آیا ۔ پیر چناسی جانے کی خواہش پوری نہیں ہو سکتی تھی۔ مگر اس بار اللہ تعالی نے یہ خواہش پوری کر دی تھی۔ پیر چناسی مزار کے اطراف میں کشمیر کی سوغاتیں بیچنے والے بھی کثرت سے موجود ہوتے ہیں۔ کویئی اخروٹ بیچ رہا ہے تو کو ئی بادام۔ زیادہ تر اشیا تو صوبہ خیبر پختون خوا سے آتی ہیں۔ مگر بیچنے والے ان کو کشمیر کی سوغاتیں ہی کہتے ہیں۔ یہیں پر جڑی بوٹیاں بیچنے والے بھی موجود ہیں۔ بقول ان کے ان جڑی بوٹیوں کا استعمال سوائے موت کے ہر بیماری کا علاج فراہم کرتا ہے۔ کئی جڑی بوٹیوں کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ کسی انسان میں پچپن کی عمر میں بھی بچپن لے آتی ہیں۔ لیکن صحافیوں کو کوئی چیز بیچنا آسان نہیں ہوتا۔ اس لیے زیادہ تر لوگوں نے بادام اور اخروٹ خریدنے پر ہی اکتفا کیا۔ واپسی کا سفر نسبتا ً آسان تھا۔ مظفر آباد میں ہوٹل پر پہنچے تو ہر کوئی تھک چکا تھا۔
    جاری ہے۔

    LEAVE A REPLY

    Please enter your comment!
    Please enter your name here