نیا سال ۔ نیا صدر
تحریر: محمد لقمان
سال 1998 کا آغاز نئے صدر مملکت کے ساتھ ہوا۔۔۔سپریم کورٹ کے سابق جج اور سینٹر محمد رفیق تارڑ کو بھاری اکثریت کے ساتھ منتخت کر لیا گیا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف کے لئے ان کی سب سے بڑی خوبی وفاداری اور تابع داری تھی۔ اس زمانے میں یہ بات زبان زد عام تھی کہ کہ 1997 کے عدلیہ بحران کے دوران انہوں نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے مقابلے میں سپریم کورٹ میں ججوں کے مخالف گروہ کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسی طرح وہ میاں برادران کے والد محترم میاں محمد شریف کے بھی بہت قریب تھے اور بقول سینیر کورٹ رپورٹر ناصر انجم ، وہ بڑے میاں صاحب کو مزے مزے کے لطیفے اور جگتیں سناتے تھے۔ گویا کہ حکمران خاندان سے گہرے تعلق کی وجہ سے ان کو ریاست کے سب سے بڑے عہدے سے نواز دیا گیا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ کوئی پہلے تابعداد صدر نہیں تھے۔ اس سے پہلے 1973 میں پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے فضل الہی چوہدری کو تب کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے صدر مملکت منتخب کروایا تھا اور وہ جنرل ضیا الحق کے ہاتھوں سینیر بھٹو کی حکومت ختم ہونے اور مارشل لا کے نفاذ کے بعد 1978 میں عہدہ صدارت سے ہٹا دیے گئے۔ وزیر اعظم بینظیر بھٹو بھی اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والے وفادار ساتھی فاروق لغاری کو نومبر 1994 میں صدر بنوانے میں کامیاب ہوئیں۔ مگر اسی صدر نے 5 نومبر 1996 کو بدعنوانی کا الزام لگا کر ان کو چلتا کیا۔ یہی وجہ تھی کہ جب نواز شریف نے اپنا صدر لانے کا فیصلہ کیا تو زیادہ تر زور اس کی وفاداری پر تھا۔ صدر رفیق تارڑ جو کہ نواز شریف کے تابع دارتھے۔ مگر جب جنرل پروزیر مشرف نے سویلین حکومت کو ختم کیا اور وزیر اعظم نواز شریف کو گرفتار کر لیا گیا تو رفیق تارڑ نے فوجی حکمران کے ساتھ دوستی کرنے کی بجائے اس کے سامنے ڈٹنے کا فیصلہ کیا۔ بعد میں بی بی سی کی ایک سٹوری نے رفیق تارڑ کی شخصیت کے اس پہلو کو بہت زیادہ اجاگر کیا۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق انہوں نے ایوان صدر سے رخصت ہوتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کے سلیوٹ کا جواب نہیں دیا تھا۔ صدر رفیق تارڑ بہت سادہ شخصیت تھے۔ صدر رفیق تارڑکی کوریج کے لئے جب بھی جب بھی کسی تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا۔ ان میں کسی قسم کا کرو فر دیکھنے کو نہیں ملا۔ مگر ان کے صدر منتخب ہونے کے بعد ان کے ایک داماد میجر (ریٹائرڈ) مبشراللہ کو کافی فائدہ ہوا اور ان کی پوسٹنگ زیادہ تر عرصے کے لئے بطور ایس ایس پی اور ڈی آئی جی لاہور میں ہی رہی۔ اسی طرح ان کی وفاداری کا صلہ بعد میں بھی شریف خاندان سے ملتا رہا ہے۔ ان کی ایک بہو سائرہ افضل تارڑ نواز شریف کے تیسرے دور حکومت میں وفاقی وزیر صحت رہیں۔ شریف خاندان میں ایک خوبی ہے کہ کہ وفاداروں کو نوازتے بھی ہیں۔