بر ی نظامی، عبیر ابوزری اور نصرت فتح علی خان
تحریر: محمد لقمان
ابھی بھی انیس سو ستانوے کے موسم گرما کی وہ گرم سہہ پہر یاد ہے جب مجھے اپنے اے پی پی کے ساتھی ساجد علیم کے ساتھ فیصل آباد کے علاقے سمن آباد کے نواح میں کچی آباد ی میں جانے کا اتفاق ہوا ۔ میں نے ان سے پوچھا کہ ہم کس سے ملنے کے لئے آئے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ ایک مشہور شاعر بری نظامی ہیں۔ ان دنوں بہت بیمار ہیں۔ ان کی تیمار داری کرتے ہیں۔ ایک چھوٹے سے گھر کے سامنے رکے ۔ دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے ایک خاتون باہر آئیں ۔ انہیں بتایا کہ ہم بری نظامی صاحب کی خیریت کا پتہ کرنے آئے ہیں تو وہ ہمیں ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گئیں۔ ایک منحنی سا شخص چارپائی پر لیٹا ہوا تھا۔ کمرے کی حالت بتاتی تھی کہ اہل خانہ بڑے مشکل حالات سے گذر رہے ہیں۔ بری نظامی صاحب سے ان کی صحت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کھانستے ہوئے بتایا کہ صحت بہت زیادہ اچھی نہیں۔ مگر اللہ کا شکر ہے کہ زندہ ہوں۔ چونکہ ان کو سانس نہیں آرہا تھا۔ اس لیے ساجد علیم نے چند منٹ ہی ان سے بات کی اور ہم باہر آئے۔ یہ بڑی عجیب بات تھی کہ جس کی شاعری کو گا کر نصرت فتح علی خان اور عطا اللہ عیسی خیلوی نے عالمی شہرت پائی اور بھلے وقتوں میں کروڑ پتی بن گئے۔ وہ شاعر چند روپے کی دوائی کے لئے بھی ترس رہا تھا۔ چھبیس دسمبر انیس سو سینتیس کو بری نظامی گوجرہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک شیخ خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام شیخ محمد صغیر تھا۔ بہت کم پڑے لکھے تھے۔ محنت مزدوری کرنے کے ساتھ شاعری بھی کرتے۔ بری نظامی کے لکھے ہوئے نغموں نے نصرت فتح علی خان کے فن کو نئی بلندیوں سے آشنا کیا- وہ خود تو غریب تھا، غریب ہی مرا، لیکن اس کانام اس کے گیتوں کے باعث امر ہو گیا- اس کے دلگداز گیت ”کسے دا یار ناں وچھڑے“نے تو سارے پاکستان کو رلا دیا تھا- بے پناہ درد ہے اس کے الفاظ میں بھی اور نصرت فتح علی کے انداز میں بھی- عطا اللہ خان عیسی خیلوی کی آواز میں بھی بری نظامی کا ہر گیت بے پناہ مقبول ہوا-جس طرح شیو کمار بٹالوی کا ہسپتال میں لکھا درختوں کے بارے میں پنجابی گیت بہت مشہور ہوا۔ اسی طرح بری نظامی نے بھی بستر مرگ پر کچھ شعر لکھے تو وہ امر ہوگئے۔ ان میں .کدی کدائیں دنیا اتے بندہ کلہا رہ جاندا اے اپنے غیر وی بن جاندے نیں بس اک اللہ رہ جاندا اے؛ بہت مقبول ہوا۔ بری نظامی 59 سال کی عمر میں 14 مئی 1998ء کو فیصل آباد میں فوت ہوئے. ان کی زندگی میں کسی نے کوئی مدد نہیں کی۔ مگر ان کی وفات کے بعد ان کے ایک دوست جمیل سراج نے ان کی شاعری کا قدراں نامی مجموعہ کلام شائع کروا دیا۔
ایک دوسرے شاعر جن سے فیصل آباد میں تعیناتی کے دوران ملنے کا موقع ملا وہ مزاحیہ شاعر عبیر ابوزری تھے۔ ان سے ملاقات مرحوم خالد عباس سیف کے گھر میں ہوئی جو کہ ان دنوں بزنس ریکارڈ ر کی نمائندگی کرتے تھے۔ عبیر ابوذری مزاحیہ شاعری کے بے تاج بادشاہ تھے۔ ان کا اصل نام شیخ عبد الرّشید تھا— وہ انیس سو چودہ میں جنڈیالہ گرو، ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد لائلپور (موجودہ فیصل آباد) میں رہائش اختیار کی اور پھر ساری زندگی وہیں بسر کی— بابا جی کی شاعری ، کئی مرتبہ تو باتیں سن کر بھی ہنسی ہنسی آجاتی تھی۔ انکی سب سے زیادہ مشہور غزل ”مسلسل” ہے جسے بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی—ان کی شاعری کی چار کتب ”پانی وچ مدھانی”، ”جلیبیاں ”، ”رخصتی” اور ”پاپڑ کرارے” شائع ہوئیں —پیرانہ سالی کے باوجود خود خوش رہنے اور دوسروں کو ہنسانے والے عبیر ابوذری سات دسمبر انیس سو ستانوے کو کبیروالا میں انتقال کرگئے مگر فیصل آباد میں دفن ہوئے۔ اب تھوڑی سی بات نصرت فتح علی خان کے بارے میں ہوجائے۔ جب تک گورے نے نصرت فتح علی خان کی گائیکی نہیں سراہا۔ مجھ سمیت اکثر فیصل آباد ی ان کو لسوڑی شاہ کے دربار پر گانے والا قوال ہی سمجھتے رہے۔ وہ تو بھلا ہو پیٹر گبریل کا کہ اس نے نصرت فتح علی خان کی لے کو دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ کے بیک گراونڈ میوزک کے طور پر استعمال کیا تو پاکستانیوں کو بھی احساس ہوا کہ یہ بہت بڑا قوال اور گلوکار ہے۔ انہوں نے بولی وڈ کے لئے بھی گانے گائے۔ سولہ اگست انیس سو ستانوے کو میں اے پی پی کے ذیل گھر والے دفتر والے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا کہ سینیر صحافی سردار محمد اختر آئے ۔بتایا کہ لندن میں نصرت فتح علی خان انتقال کرگئے ہیں۔ فوری طور پر ریگل روڈ پر نصرت فتح علی خان کے آبائی گھر گئے تو اہل محلہ اور عزیز و اقارب بڑے دکھ میں نظر آئے۔ اس حوالے سے ایک خبر اسلام آباد بھیجی۔ ایک اور شخصیت جن کا انتقال میری فیصل آباد تعیناتی کے دوران ہوا۔ وہ پاکستان کے پہلے نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام تھے۔ ہمارے ساتھی رپورٹر ساجد علیم ربوہ میں ان کی آخری رسومات کی کوریج کے لئے گئے تھے۔