جب قصور کینسر کا گڑھ بنا
تحریر: محمد لقمان
انیس سو نوے کی دہائی کے ساتھ ہی قصور اور گرد ونواح میں کینسر ایک وبا کی طرح پھیلنے لگا تھا۔ اس کی وجہ اس زمانے کے معروف اونکالوجسٹس کے مطابق قصور شہر میں موجود چمڑے کے کارخانے تھے۔ ان کارخانوں میں چمڑے کی رنگائی کے لئے کرومیم دھات کے نمکیات کا استعمال ہوتا تھا۔ جو کہ فاضل پانی کے زیر زمین جانے کے بعد پینے کے پانی اور سبزیوں میں جا کر انسانی جسم کا حصہ بن جاتے اور بعد میں کینسر کا باعث بن جاتے ۔ اس زمانے میں لاہور میں کینسر کی ماہر ڈاکٹر خالدہ عثمانی اس معاملے کو میڈیا میں لانے میں پیش پیش تھیں۔ میں نے اے پی پی کے رپورٹر کی حیثیت میں اسی ایشو پر انیس سو ترانوے میں کام شروع کیا۔ کئی مرتبہ قصور گیا اور اس مسئلے پر فیچرز لکھے۔ ان میں ایک فیچر کے لئے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر قصور شائگان شریف ملک سے انٹرویو کیا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ قصور شہر جغرافیائی طور پر ایک پیالے کی شکل کی زمین پر قائم ہے۔ جہاں سے پانی کی نکاسی آسان نہیں۔ اگر قصور میں کارخانوں سے نکلنے والے آلودہ پانی کے ٹریٹمنٹ کے لئے پلانٹ لگ جائے تو اس مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ فیچر کے لئے مجھے اس وقت قصور ٹینرز ایسوسی ایشن کے صدر شفیق پساری سے ملاقات کا بھی موقع ملا۔ جنہوں نے بتایا کہ حکومت کچھ نہیں کر رہی۔جب پوچھا کہ تاجر برادری اپنی مدد آپ کے تحت منصوبے کے لئئے کسی قسم کی مالی معاونت دے گی۔ تو آئیں بائیں شائیں ہی کرتے رہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ سیالکوٹ کی کاروباری برادری کے علاوہ کبھی بھی کسی اور شہر کے تاجروں نے اپنے مسائل کے حل کے لئے روپیہ پیسہ خرچ نہیں کیا۔ ہمیشہ روتے پیٹتے ہی رہے ہیں۔ قصور کے متاثرہ علاقوں میں جانے کے لئے اے پی پی لاہور کے اس وقت کے ٹیلی پرنٹر آپریٹر عبدالقدوس قصوری جو کہ بعد میں جرنلسٹ کیڈر میں آگئے، نے بہت تعاون کیا۔ وہ مجھے دین گڑھ، یونس نگر اور دیپال پور روڈ لے کر گئے ۔ جہاں آبادیاں ٹینریز سے آنے والے پانی میں ڈوب چکی تھیں۔ ہر کسی کو دوسری جگہ جانے کے لئے اس آلودہ بدبودار پانی سے گذرنا پڑتا تھا۔ ایک جگہ ایک مری ہوئی گائے کا چمڑا اترتے دیکھا۔ اسی گائے کے گوشت کو قیمہ بنتے اور بعد میں اس کو مرغی کی فیڈ میں ڈالتے ہوئے بھی دیکھا۔ چمڑہ سازی کی پوری پروڈکشن چین کو دیکھنے کے لئے ٹینریز کے اندر بھی گیا۔ اس موقع پر مجھے قصور کے متاثرہ علاقوں کے رہائشیوں نے بتایا کہ آلودہ پانی پینے کے بعد ان کی بھینسیں گونگی ہوگئی ہیں۔ یہ بات بعد میں ماہرین ماحولیات اور ڈاکٹرز کی تحقیق سے بھی ثابت ہوئی کہ کرومیٹ سالٹ سے آلودہ پانی پینے سے انسانوں اور جانوروں میں گونگا پن آتا ہے۔ ان مسائل کا حل صرف ٹریٹمنٹ پلانٹ ہی نہیں تھا بلکہ ایسے ہسپتال کی ضرورت بھی تھی جو کہ کینسر کے مریضوں کا علاج کر سکے۔ یہ خواب انتیس دسمبر انیس سو چورانوے کو اس وقت پورا ہو ا جب لاہور کے علاقے جوہر ٹاون میں شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال نے کام شروع کیا۔
یہ ہسپتال موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی انتھک کوششوں کا نتیجہ تھا ۔ انہوں نے سرسید احمد خان کی طرح ہر جگہ سے چند ہ اکٹھا کیا۔ وہ ایک مقبول کرکٹر تھے۔ اس لیے پاکستان کی تمام عوام نے اس کے لئے اپنا حصہ ڈالا۔ ہسپتال کے لئے زمین پنجاب حکومت نے فراہم کی تھی جبکہ رقم عوام نے۔ گویا یہ ایک پبلک ۔ پرائیویٹ پارٹنر شپ کی ایک عمدہ مثال تھی۔ عمران خان کا بطور چیرٹی ادارے کے ہیڈ کے طور پر کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔