تحریر: محمد لقمان
آخر کرونا وائرس کا آغاز کیسے ہوا۔ ابھی تک اس بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی۔ کوئی کہتا ہے کہ چین کے شہر ووہان میں چمگادڑ کے خون سے یہ وائرس پھیلا۔ کوئی اسے چین اور دنیا کے دیگر ممالک کے خلاف امریکی سازش کہہ رہا ہے۔ گویا کہ سازشی مفروضوں کا ایک سیلاب ہے۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو اکثریت اسے مذہبی رنگ دینے کی کوشش میں مصروف ہے۔ گویا کہ خدا کے ناراض ہونے سے یہ وبا آئی ہے۔ نائین الیون کی طرح اس بار بھی یہ کہا گیا کہ اسرائیل اور یہودی سائنسدان ہی اس آفت کے ذمہ دار ہیں۔ مگر جب اسرائیل میں بھی اس وبا کے پھیلنے کی خبریں آنے لگیں تو سازشی مفروضے کے بانیوں کا رخ کسی اور طرف ہوگیا۔ بھارت میں تو حسب سابق اس وائرس کے پھیلاو کا ذمہ دار بھی مسلمانوں کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ سب سے زیادہ عجیب و غریب اور مضحکہ خیز باتیں اس کے علاج کے بارے میں پھیلائی جا رہی ہیں۔ اور دنیا بھر کے نیم حکیم ہر طرح کا علاج بغیر کسی فیس کے فراہم کو تیار ہیں۔ اس وقت فیس بک اور وٹس ایپ کے ان باکس ہر روز ایسی تراکیب اور تجاویز سے بھر جاتے ہیں۔ جن کی کوئی عقلی یا سائنسی توضیح نظر نہیں آتی۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ گوشت کو ترک کرکے سبزیاں کھائی جائیں تو کرونا نحیف ہو کر اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ کوئی وٹامن سی کے لئے لیموں اور دیگر ترشاوہ پھل کھانے کی تجویز دیتا ہے۔ کسی کے مطابق شہد کو پانی میں ڈال کر صبح سویرے پیا جائے تو کرونا قریب سے نہیں گذرتا۔ بے پر کی اڑانے والوں میں میں صرف پاکستانی ہی نہیں، بھارت، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے لوگ بھی شامل ہیں۔ بھارت کی انتہا پسند جماعتوں نے تو گائے کے پیشاپ اور گوبر کو وائرس کا تریاق قرار دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں گاو موترا کی فروخت بھی تیزی سے جاری ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے گذشتہ دنوں ملیریا کی دوا کلوروکین کو دافع کرونا قرار دیا تو اس کے اثرات دنیا بھر کی ادویات کی منڈیوں پر آئے۔ بائر کی ریسوچن اور فائز ر کی بیسو کین ہاتھوں ہاتھ بکنے لگیں۔ واشنگھٹن سے ہزاروں میل دور واقع کراچی اور لاہور جیسے شہروں میں بھی کئی روز تک ان کی قلت رہی۔ اس سلسلے میں پنجاب حکومت تو کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگئی ہے۔ حال ہی وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار نے کرونا وائرس کی روک تھام پر ایک اجلاس کی صدارت کی تو شرکا سے بہت معصوم سی خواہش کا اظہار کردیا کہ دنیا میں اگر کرونا وائرس کے خلاف کوئی ویکسین بنتی ہے تو سب سے پہلے پنجاب کو بنانی چاہیے۔ ان سب غیر سنجیدہ باتوں کے برعکس پاکستان میں ایک اچھی بات بھی ہوئی ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ کیمیا کے سائنسدانوں نے کورونا کے مریض سے حاصل کردہ وائرس کے جینوم پر تحقیق کی تو پتہ چلا کہ یہ وائرس چین میں بیماری کا باعث بننے والے جراثیم سے کچھ مختلف ہے۔ گویا کہ پاکستان میں وائرس پر تحقیق کا ایک مثبت اور صحیح سمت میں آغاز ہوگیا ہے۔