ملتان کی علاقائی صحافت
تحریر: محمد لقمان
وہ رات میں نے ٹی پی او خلیل احمد کے گھر میں گذاری۔ اس وقت وہ ادھیڑ عمر تھے۔ بچے یونیورسٹی ا ور کالج میں تھے۔ اگر دو چار سال کے بعد ریٹائر بھی ہوئے ہوں گے تو ان کا کسی نہ کسی طور پر کوئی نہ کوئی بچہ سہار ا بن گیا ہوگا۔ صبح کو دفتر پہنچا تو وہاں دفتر کے ایڈمن اسسٹنٹ مقبول حسین سے ملاقات ہوئی۔ میانے قد کے مالک مقبول حسین اپنے کام میں بہت زیادہ ہوشیار تھے۔ میں نے ان سے ملتان کے میڈیا سے جان پہچان نہ ہونے کا بتایا۔ فوراً حل نکال لیا۔ کہ اگلے دن دفتر میں ایک ہائی ٹی کا انتظام کرلیتے ہیں۔ جن میں سرکاری اور نجی میڈیا کے علاوہ پی آئی ڈی اور ڈی جی پی آر کے افسران کو بلا لیں گے۔ بہر حال اگلی صبح مقررہ وقت پر اکثر مدعوئیں اے پی پی ملتان کے دفتر میں تشریف لا چکے تھے۔ ان میں ڈی جی پی آر ملتان کے ڈائریکٹر سید اظہر امام زیدی، ڈی جی پی آر بہاولپور کے ڈائریکٹر رضو ی صاحب، پی آئی ڈی ملتان کے ڈپٹی ڈائریکٹر رائے آصف، روزنامہ نوائے وقت سے راو شمیم اور دیگر کئی اخباروں کے نمائندے شامل تھے۔ فیصل آباد کی نسبت ملتان کا پریس زیادہ سنجیدہ تھا۔ میں نے سب کو بتایا کہ عارضی طور پر ملتان آیا ہوں۔ اس شہر میں نیا ہوں ۔ اس لیے سب کی معاونت چاہتا ہوں۔ ایک بات تقریباً سب نے کہی کہ ملتان میں آتے ہوئے بھی لوگ روتے ہیں اور جاتے ہوئے۔ مطلب یہ کہ لاہور ، کراچی اور اسلام آباد کی نسبت ملتان اس دور میں بہت سویا سویا شہر تھا۔ اس لیے ملازمت پیشہ لوگ یہاں کی سست زندگی کی وجہ سے نہیں آتے تھے۔ مگر جب یہاں کے لوگوں کی محبت ملتی تھی۔ تو یہیں کے ہوجاتے۔اس سلسلے میں انہوں نے میرے سینیر عبدالغنی چوہدری کی مثال دی جنہوں نے اسلام آباد میں ایک بڑے عہدے پر جانے سے پہلے یہاں کئی سال گذار دیے تھے۔ ابھی ملاقات جاری تھی کہ خبر ملی کہ سابق صوبائی وزیر زکوۃ و عشر سعید احمد قریشی کے بیٹے کو قتل کر دیا گیا ہے۔ میرے لیے بڑی پریشانی کی بات تھی۔ ابھی تو میرا اس شہر میں پہلا ورکنگ ڈے تھا اور ایک بڑی واردات کی خبر کے لوازمات کیسے اکٹھے ہوں۔ مگر وہاں پر موجود اردو اور انگریزی اخبارات کے نمائندوں نے فوری طور پر معلومات فراہم کردیں۔ یوں میں ایک بڑی پریشانی سے بچ گیا۔ سید اظہر امام زیدی سے آنے والے دنوں میں مسلسل ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ رائے آصف ، جو کہ ملتان پی آئی ڈی کے سربراہ تھے۔ سرکاری تقریبات کے بارے میں مطلع رہنے کے لئے تعلقات ضروری تھے۔ اس لیے ان سے ہر ہفتے ملاقات ہوتی رہی۔ اس سے اگلے دن ابدالی روڈٖ پر ملتان پریس کلب گیا۔ وہاں پریس کلب کے اس وقت کے صدر اور نوائے وقت کے سینیر رپورٹر راو شمیم سے ایک بار پھر ملاقات ہوگئی۔ ان کے بھائی راو وسیم بھی موجود تھے۔ پریس کلب کی بھلے سے عمارت چھوٹی تھی۔ ماحول بہت اچھا لگا۔ ایک دن اپنے دفتر سے تھوڑی دیر ہی واقع جنگ کے دفتر گیا۔ وہاں جمشید رضوانی جنہوں نے اپنے صحافی والد خان رضوانی کی وفات کے بعد جنگ میں رپورٹر کے طور جوائن کیا تھا، سے ملاقات ہوئی۔ جمشید رضوانی کی اس وقت عمر بائیس تئیس سال سے زیادہ نہیں تھی۔ مگر ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مصداق اس کی ایک اچھے رپورٹر کے طور پر پہنچا ن شروع ہوچکی تھی۔ انہی دنوں مجھے کسی نے بتایا کہ انگریزی اخبار ڈان کے ملتان آفس میں لیہ سے تعلق رکھنے والا ایک رپورٹر آیا ہے۔ جس کا نام روف کلاسرا ہے۔ میں بڑی دیر تک سوچتا رہا کہ یہ کلاسرا کتنا مختلف اور اجنبی نام ہے۔