خار زار صحافت۔۔۔۔قسط چوالیس

0
2618


خدا حافظ تہران
تحریر: محمد لقمان

باالآخر تہران سے پاکستان واپسی کا دن آ ہی گیا۔۔۔انتیس ستمبر کی صبح کو بیدا ر ہوا تو پتہ چلا کہ کمرے میں موجود دوسرا پاکستانی صحافی طارق رشید مشہد روانہ ہو چکا تھا۔اچانک روانگی کے بارے میں اس نے ورکشاپ کے کوآرڈینٹرز سے تو بات کی تھی۔ مگر مجھے لاعلم ہی رکھا۔ آخر ایسی راز داری کیا تھی۔ اس کا پتہ مجھے سہہ پہر کو پتہ چلا۔ میری اس بار تہران سے براہ راست کراچی فلائٹ تھی۔ چار بجے میں چیک آوٹ کے لٗے ہوٹل کی لابی میں آیا تو ارنا کے دو نمائندے میر ی مدد کے لئے موجود تھے۔ ریسپشن پر گیا تو پتہ چلا کہ میرے کمرے کے ذمے ساٹھ لاکھ ایرانی ریال تھے۔ میں نے بتایا کہ سب کچھ تو ایرانی خبر رساں ایجنسی ارنا تو ادا کرنا تھا تو ایسے واجبات کہاں سے آگئے تو بتا یا گیا کہ کمرے کے دوسرے مکین نے پول سائیڈ پر کئی ڈنر کیے ہیں اور لانڈری کا استعمال بھی بے دریغ کرتے رہے ہیں۔ اسی تکرار میں بہت سا وقت ضائع ہوگیا۔ بالآخر ارنا کے ایڈمن مینجر قلی زادہ آئے۔ انہوں نے لالہ انٹرنیشنل ہوٹل کوادئیگی کی۔ یوں میں تہران کے مہر آباد ایرپورٹ روانہ ہو سکا۔ پاکستان انٹرنیشنل ایرلائنز کی پرواز کچھ دیر کے بعد کراچی کے لئے روانہ ہوئی۔ ایک احساس ضرور ہوا کہ ایمریٹس کی سروس کی اور ہی بات ہے۔ تقریباً دو گھنٹے کی پرواز کے بعد کراچی پہنچا تو ایک افسوس ناک خبر منتظر تھی۔ کچھ مہینے پہلے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عہدے سے فارغ کیے گئے درویش صفت وزیر اعلی پنجاب غلام حیدر وائیں کو ان کے آبائی علاقے میاں چنوں میں قتل کردیا گیاتھا۔ بڑے بوجھل دل کے ساتھ اس خبر کو سنا۔ سفر ایران کی بڑی میٹھی یادوں کو سمیٹے آیا تھا مگر وائیں کی موت نے دل کو بہت افسردہ کردیا تھا۔ آدھے گھنٹے کے بعد کراچی سے لاہور جانے والی پرواز میں سوار ہوا تو تقریباً دو گھنٹے کے بعد لاہور ایرپورٹ پر موجود تھا۔ تقریباً آدھی رات ہوچکی تھی۔ رکشے کے ذریعے ریواز گارڈن میں واقع بیچلر ہوسٹل میں اپنے کمرے میں پہنچا تو پتہ چلا کہ میرا روم میٹ شعیب بوبی کسی اور ہوسٹل میں شفٹ ہو چکا تھا۔ اب اگلے مہینے کا پورا کرایہ مجھے اکیلے کو ہی دینا تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here