خار زار صحافت۔۔۔قسط اڑتیس

0
2480

 تہران: کچھ پاکستانی سفارتخانے کے بارے

تحریر: محمد لقمان

صبح سویرے اپنے ہوٹل کے کمرے کی کھڑکی سے باہر جھانکا تو تہران کی سڑکوں پر جیسے مرد وزن مشینی انداز میں چل رہے تھے۔ ایک کروڑ کے قریب آبادی کے اس شہر میں زندگی بہت تیز نظر آئی۔ ورکشاپ میں شرکت کے لئے ارنا کے ہیڈکوارٹرز کی طرف سفر کے دوران بھی کسی شخص کو بیکار کھڑے نہیں دیکھا۔ البرز پہاڑی سلسلے کے قریب واقع تہران کا اپنا ہی حسن ہے۔ کبھی یہ میدانی علاقہ لگتا ہے تو کبھی پہاڑی۔ تھوڑے فاصلے پر ایران کا مرکزی صحرا بھی موجود ہے۔۔گویا کہ ایک ٹکٹ میں کئی مزے۔ لالہ انٹرنیشنل ہوٹل سے کچھ فاصلے پر ہی  پاکستانی سفارتخانے  واقع ہے۔ پریس اتاشی عشرت علی شیخ کی دعوت پر ایک دن پیدل ہی سفارتخانے کی طرف چل پڑا۔ تھوڑی دیر کے بعد پتہ چلا کہ دو ایرانی ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ غور کیا تو  احساس ہوا کہ ایرانی خفیہ ایجنسی نگرانی کررہی ہے۔ پاکستانی سفارت خانے پہنچا تو وہ لوگ پیچھے ہی کھڑے ہوگئے۔ میں نے ان کی طرف دیکھا تو مسکرا کر سر ہلایا مگر ان کے پتھریلے چہروں پر کوئی احساس دیکھنے کو نہ ملا۔ سفارتخانے کے اندر گیا تو پریس اتاشی بڑے تپاک سے ملے۔ مجھے پہلے پاکستان کے سفیر نجم الدین شیخ کے پاس لے گئے۔ شیخ صاحب جو کہ بعد میں پاکستان کے سیکرٹری خارجہ بھی رہے، گلے ملے ۔ ان سے پاک۔ ایران تعلقات پر تفصیل سے بات ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ  شمشاد احمد خان اقتصادی تعاون کی تنظیم ای سی او کے تہران میں ہیڈکوارٹرز میں سیکرٹری جنرل کے طور پر تعینات ہیں۔ ایران میں قیام کے دوران اتنا مصروف رہا کہ ای سی او کے دفتر ہی جا نہ سکا۔ سفیر سے ملاقات کے بعد عشرت علی شیخ کمرشل اتاشی مقبول تالپور کے پاس لے گئے۔ کمرے کے باہر رائے زن بازرگانی لکھا ہوا تھا۔ مقبول تالپور جو کہ اس وقت چالیس سال کے پیٹے میں تھے۔ نے چھوٹتے ہی پوچھا کہ کیا کھانے پینے میں کیا پسند کریں گے۔ میں نے بھی جھٹ سے جواب دیا کہ دودھ والی چائے۔ وہ بڑے حیران ہوئے تو میں نے بتایا کہ جب سے تہران آیا ہوں کہ دودھ پتی نصیب نہیں ہوئی۔ انہوں نے فوری طور پر میری فرمائش پوری کرنے کے لئے اپنی ایرانی نژاد سیکرٹری سے کہا ۔ جو کہ تقریباً پندرہ منٹ بعد میرے لیے چائے لے آئی۔ اس دوران مقبول تالپور کو پاکستان سے ایک کال آئی ۔ جس کے دوران انہوں نے چاول کی ایک بڑی کنسائنمنٹ بھیجنے کا کہا۔ گویا کہ وہ صرف کمرشل اتاشی نہیں تھے۔ چاول کے ایک بڑے ایکسپورٹر بھی تھے۔ مجھے تب سمجھ آئی کہ پاکستان سے برآمدات بڑھانے میں سنجیدہ کوششیں کیوں نہیں ہوتیں۔ سفارتخانے سے واپس ہوٹل کی طرف چلا تو وہ میرے ایرانی دوست دوبارہ میرے ساتھ تھے۔ میں نے مسکرا کر ان کی طرف دیکھا تو اس بار وہ بھی جواباً مسکرائے۔ اب وہ جان چکے تھے کہ میں ان کی حیثیت کو پہنچان چکا ہوں۔ ہوٹل میں اپنے کمرے میں گیا اور سفیر کے ساتھ ہونے والی گفتگو کی بنیاد پر ایک خبر لکھی اور نیچے لابی میں ٹیلیکس آپریٹر کے پاس خبر پاکستان بھیجنے کے لئے لے گیا۔ آپریٹر نے ایک آدھ ڈالر کے بدلے خبر پاکستان بھیج کر رسید دے دی۔ یہ خبر بھی یقیناً ایرانی انٹیلیجنس ایجنسی کی نظروں سے گذری ہوگی۔ اس کا احساس پاکستان پہنچ کر ہوا۔ کیونکہ بھارتی وزیر اعظم نرسیمہا راو کے دورہ ایران کے بارے میری خبر مقررہ رقم وصول کرنے کے باوجود بھی ٹیلیکس آپریٹر نے اسلام آباد نہیں بھیجی تھی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here