خار زار صحافت۔۔۔قسط گیارہ

0
2804

 

ٹریننگ ختم، بچھڑنے کا وقت آگیا

تحریر: محمد لقمان

فروری 1991 کے تیسرے ہفتے میں اے پی پی کی ٹریننگ کے تین ماہ مکمل ہوئے تو   بیچ کے ارکان کو ملک کے مختلف بیوروز میں بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔  شہاب ظفر، رافیعہ حیدر، اشفاق الرحمان قریشی، مدحت سیدہ ، معظم ہاشمی ، شجاع الدین قریشی اور اعجاز شاہ  کے نام  کراچی کے لئے تجویز ہوئے۔ مجھے ، آمنہ حسن اور علی عمران  کے لاہور جانے کے آرڈر ہوئے۔ جہاں ہمارے ساتھ وسیم فاطمہ نے بھی جائن کرنا تھا۔ باقی گیارہ ٹی جے کی پوسٹنگ اسلام آباد ھیڈکوارٹر میں ہوئی ۔ ڈائریکٹر نیوز ایم آفتاب سے آخری ملاقات ہوئی ۔انہوں نے ہماری ھمت بڑھائی اور ہیڈ آفس دی گئی تربیت کے مطابق صحافتی ذمہ داریاں ادا کرنے کی ھدایت کی۔ لاہور جانا میری بھی خواہش تھی۔ کیونکہ ان دنوں میری والدہ شدید بیمار تھی۔ انہیں ذیا بیطس کے ساتھ ساتھ عارضہ قلب بھی تھا۔ ان کی خیریت دریافت کرنے لئے تین ماہ کے دوران اسلام آباد سے فیصل آباد جانا میرے لیے بہت مشکل رہا تھا۔ اس وقت تک ابھی لاہور۔ اسلام آباد موٹروے کی بنیاد بھی نہیں رکھی گئی تھی۔ اس لیے راولپنڈی سے فیصل آباد آنے میں 8 سے 9 گھنٹے لگ جاتے تھے۔ جبکہ لاہور سے فیصل آباد سفر کرنے میں دو سے تین گھنٹے لگتے تھے۔ اسلام آباد سے لاہور ٹرانسفر کو میں نے اپنے لیے ایک سہولت جانا اور بغیر کسی حیل وحجت کے میں اگلی منزل کے لئے تیار ہوگیا۔  صوبہ سرحد کے ذیشان حیدر اور سیما اقبال اور کوئٹہ کے اعجاز شاہ کے علاوہ  سبھی کو ان کے آبائی علاقوں یا قریب کے شہروں میں ٹرانسفر کردیا گیا۔ اسی دوران ذیشان حیدر اور ایک اور صاحب نے راولپنڈی میں زبیر احمد خان صاحب کی زیر قیادت کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے تو چالو لڑکا چاہیے۔ ان کا اشارہ شفیق احمد قریشی کی طرف تھا جو کہ اے  پی پی میں آنے سے پہلے پی پی آئی نیوز ایجنسی میں کام ر ہے تھے اور  مسلم لیگ ن کے رہنما صدیق الفاروق ان کے چیف رپورٹر رہے تھے۔ قصہ مختصر ٹرانسفر ہونے والے ٹرینی جرنلسٹس کراچی اور لاہور روانہ ہوگئے۔ تین ماہ اکٹھا رہنے کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ ایک عجب انس پیدا ہوچکا تھا۔ رخصت ہوتے ہوئے تقریباً سبھی کی آنکھیں آبدیدہ تھیں۔ بیتے ہوئے لمحے یاد آرہے تھے۔ 20 فروری کی رات کو میں نے راولپنڈی سے فیصل آباد کا سفر کیا۔ صبح سویرے میں فیصل آباد پہنچا تو امی بہت خوش تھیں۔ 21 فروری کا پورا دن میں نے اپنے خاندان کے ساتھ گذارا۔ ابا جی ، بڑے بھائیوں اور بہنوں نے نوکری کے بارے میں پوچھا ۔ تنخواہ کے بارے میں سوال ہوا تو پندرہ سو روپے مہینے کےوظیفے  کے بارے میں بتاتے ہوئے کافی ھچکچاہٹ محسوس ہوئی۔ مگر اباجی نے ہمت بڑھائی کہ ساری عمر تو آمدنی اتنی نہیں رہے گی۔ لاہور روانگی سے پہلے کی رات یہی سوچ دامن گیر تھی کہ بیورو میں پتہ نہیں کیسے حالات ہوں گے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here